مصور ِ پاکستان علامہ اقبال رح نے فرمایا تھا ……دین ِ ملا فی سبیل اللہ فساد……تاہم ہم یہ کہنے کا حق کسی طور نہیں رکھتے نہ ہی یہ ہمارا بیانیہ ہے۔لیکن معاشرے میں جس طرح مذہبی جنونیت کی تند وتیز آندھیاں امن و رواداری کی بنیادوں کو ڈھانے کے درپے ہے۔
ا س کے بعد زبا ن گنگ ہوکر ہی رہ جاتی ہے۔ ایک ہولنا ک سلسلہ ہے جو ختم ہونے کانام ہی نہیں لیتابلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ حالیہ دنوں ایک معصوم خاتون مذہبی جنونیت کی بھینٹ چڑھتے ہوئے بس خداکے فضل وکرم سے محفوظ رہ گئی۔
وگرناایک اور معصوم موت ہمیں بین الاقوامی دنیا میں کلنک کا ٹیکا لگواتے ہوئے کہیں کا نہ چھوڑتی۔ہوا یہ کہ لاہور کے علاقے اچھر ہ میں ایک خاتون عربی برانڈ کا سوٹ زیب تن کئے جس پر عربی زبان میں بلکہ عربی کیلیگرافی والے ڈیزائن میں عربی لفظ حلوہ لکھا ہوا تھا موجود تھی۔
اس عام فہم عربی لفظ کے معنی حسین، خوبصورت اور سویٹ کے ہیں۔اورسعودیہ میں اس طرح کے لباس عام طور پر فروخت ہوتے ہیں۔لیکن مذہبی جنونیت کی ماری اور علم و تعلم سے عاری قوم نے عربی کی عبارت دیکھ کر اس خاتون کو گھیرے میں لے لیا۔اور اس کی جان کے دشمن ہوگئے۔
اور اگر پولیس موقع پر نا پہنچ پاتی تو شاید وہ ہجوم بد دماغاں اس خاتون کو مار بھی چکا ہوتا۔ اور ہمارے پاس گریہ وماتم کے سوا کوئی حل باقی نہ رہ جاتا۔
اس موقع پر ایس ڈی پی او گلبرگ لاہور اے ایس پی شہربانو نقوی کا ذکر نہ کرنا انتہائی ناانصافی ہوگی۔ جنھوں نے اپنی جان پر کھیل کر مشتعل ہجوم کی دسترس سے خاتون کو بحفاظت باہر نکال لیا۔خاتون پولیس افسر مشتعل ہجوم کو مستقل یقین دلاتی رہیں کہ اگر خاتون کی جانب سے توہین ِ مذہب کا ارتکاب کیا گیاہے تو اسے قرار واقعی سزا دی جائے گی اور قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
ان کی یقین دہانی اور بروقت مداخلت نے حملہ آور مذہبی جنونیوں کی راہ مسدود کر دی۔جس کے لئے اے ایس پی مبارکباد و تہنیت کی مستحق ہیں۔