امجد پرویز ایک نابغہ ء روزگار

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں ……مرزا غالبؔ کا یہ نکتہ ہر صدی ہر وقت اور ہر دور کے لئے ہے۔اور ہر دور گواہ ہے کہ ایسی ہستیاں اس عالم رنگ وبو میں جنم لیتی ہیں جوروئے زمین کومزید خوبصورت اور دلکش بنادینے میں اپنا بہترین کردار ادا کرتی ہیں۔امجد پرویزتین مارچ دوہزار چوبیس کو داغ ِ مفارقت دے گئے، وہ بیک وقت انجینئر، مصنف، اور گلوکار تھے۔

انھوں نے نیسپاک (نیشنل انجینئرنگ سروسز پاکستان) کے چیف انجینئر، جنرل منیجر، نائب صدر اور منیجنگ ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اٹھائیس مارچ انیس سو پینتالیس کو لاہور، برٹش انڈیا میں شیخ عبدالکریم کے گھر پیدا ہونے والے امجد پرویز جو اسلامیہ کالج لاہور کے شعبہ کیمسٹری کے سربراہ بھی رہے۔

تحریر وتقریر کا ملکہ وراثت میں پایا تھا۔امجدپرویز کے دادا خواجہ دل محمد اسلامیہ کالج لاہور میں پرنسپل تھے۔جو تحریک پاکستان کے شاعر بھی تھے۔اوران کی قوم پرست نظمیں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ کنونشن میں پڑھی جاتی تھیں جس کی صدارت شاعر ِ مشرق علامہ اقبال کیا کرتے تھے۔

امجد پرویز نے انیس سو سرسٹھ میں مکینیکل انجینئرنگ میں گریجویشن کیا۔ انیس سو اڑسٹھ میں یونیورسٹی آف برمنگھم،یو کے گئے، جہاں انہوں نے انیس سو انسٹھ میں کوالٹی اور ریلائیبلٹی انجینئرنگ میں ماسٹر ڈگری اور انیس سو بہتر میں انجینئرنگ پروڈکشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

موسیقی کی طرف آئیے توفنِ گلوکاری امجد پرویزکے رگ وپے میں بچپن سے ہی دوڑ رہا تھا۔ وہ پیدائشی گلوکار تھے۔ انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور چائلڈ آرٹسٹ انیس سو چوون میں ریڈیو پاکستان لاہور میں بچوں کے پروگرام ‘ہونہار’ سے کیا اور ساٹھ کی دہائی میں ‘خاطرِ احباب’ میں نمودار ہوئے۔

انہوں نے کلاسیکی گائیکی کی تربیت شام چورسیہ گھرانے کے استادوں سے حاصل کی۔جن میں نامی گرامی استادِ فن نزاکت علی خان-استاد سلامت علی خان کی جوڑی بھی شامل ہے۔امجد پرویز نے انیس سو سترکی دہائی سے سینکڑوں غزلیں، گیت اور دیگر گانے ریکارڈکروائے۔

دو دہائیوں تک انہوں نے ہر ماہ پروگرام ”آہنگِ خسروی” کے لیے ایک راگ پیش کیا اور پچاس سے زائد راگ خیال شکل میں پیش کئے۔امجدپرویز نے ہلکے، نیم کلاسیکی موسیقی اور کلاسیکی موسیقی میں گیت گائے اوروقت کے ناموروں سے خوب داد وتحسین حاصل کی۔

امجد پرویز حقیقتاًنابغہ ء روزگار تھے،وہ پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن (پی ٹی وی) سے بھی انیس سو چونسٹھ میں اپنے آغاز سے وابستہ رہے۔ اپنے طویل کیریئر کے دوران انہوں نے امریکا، برطانیہ، فرانس، اٹلی، ناروے، ڈنمارک، مصر، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، بحرین، میانمار اور ہندوستان کے دورے کئے اور اپنے ماہرانہ تجربات سے ان ملکوں کے ٹیلی ویژنز کو بھی مستفید کیا۔

ان کی تحریروں کو قومی و بین الاقوامی سطح پرپذیرائی حاصل ہوئی۔ اپنی زندگی کی آخری تین دہائیوں تک روزنامہ دی نیشن (پاکستان) کے لیے کتابوں کے حوالے سے باقاعدہ کالم لکھتے رہے۔

ان کی تحریروں کو دو جلدوں میں جمع کیا گیاہے۔ ‘سمفنی آف ریفلیکشنز’ دوہزار چھ اور ‘رینبو آف ریفلیکشنز’۔اس کے علاوہ ان کی تحریرات موسیقی کے حوالے سے بھی پائندہ و تابندہ ہیں اورمتعدد پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں۔ ان کی ایک کتاب کا عنوان ‘میلوڈی میکرز آف دی سب کونٹینٹ’ہے جس میں انیس سوپچاس سے انیس سو اسی کی دہائی تک ہندوستان اور پاکستان کے سینتالیس میوزک کمپوزرز کا احاطہ کیا گیا ہے۔

امجد پرویز کی خدمات کا اعتراف حکومتی اور دیگر سطحوں پر بھی کیا گیا۔انیس سو ستتر میں بہترین تکنیکی مقالہ لکھنے پر صدر پاکستان کی طرف سے گولڈ میڈل ایوارڈ،دوہزار نومیں ڈاکٹر اے کیو خا ن لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈصدر پاکستان کی جانب سے اوردوہزار میں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈدیئے گئے۔امجد پرویز کا انتقال لاہورمیں اٹھتر سال کی عمر میں ہوا۔