سندھ ہائیکورٹ نے خواتین وکلاء کی پیمرا، وفاقی و صوبائی حکومت اور آرٹس کونسل اور دیگر کیخلاف درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کردیئے ہیں۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو خواتین وکلاء کی پیمرا، وفاقی و صوبائی حکومت اور آرٹس کونسل اور دیگر کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ آپ کو یہ درخواست آٹھ مارچ سے پہلے دینی چاہئیے تھی۔
درخواستگزاروکلاکاموقف تھاکہ ہم نے پہلے فوری سماعت کی استدعا کی تھی، لیکن ہماری درخواست درخور اعتنا نہیں سمجھی گئی۔
عدالت نے مزیداستفسار کیا کہ عورت مارچ میں ایسے کیا غیر اخلاقی کام ہورہے ہیں جو قابل اعتراض ہیں۔جواب میں درخواستگزار وکلا کا کہنا تھاکہ عورت مارچ میں ہمارے معاشرے اور شریعت ِ اسلامی کے برخلاف حرکات وسکنات کی گئیں۔
اس کے علاوہ اس میں آزادی ء نسواں کے نام پر ڈانس اور عریانیت کو فروغ دیا جارہا ہے۔اور عورت مارچ شرکاء کو یہ سب کرنے کیلئے آرٹس کونسل اور دیگر ادارے ماحول اور اجازت فراہم کررہے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ان غیر اخلاقی چیزوں سے ہمارے معاشرے پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں، آئین اور قانون میں اس کی کیا تشریح ہے، ہمارے اسلامی نظام میں عورت کو مکمل آزادی ہے۔
تاہم درخواستگزار وکلا کا موقف تھاکہ عورت مارچ کے پروگراموں کے انعقاد کے لئے ثقافتی مراکز اور پارکس کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اسے بھی روکنا ضروری ہے۔