پاکستان میں مقامی طور پر انسولین کی پیداوار شروع کرنے کا مطالبہ

گزشتہ سال پاکستان میں انسولین کی تین مرتبہ مصنوعی قلت پیدا کی گئی جس کے نتیجے میں ٹائپ ون ذیابیطس میں مبتلا کئی بچے جان بحق ہوئے جبکہ سینکڑوں بچوں کے کئی اعضاء زندگی بھر کے لیے ناکارہ ہو گئے۔

انسولین کی قلت پر منعقدہ نیشنل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر، سابق وزراء اور سینیٹرز کا کہنا تھا گزشتہ ایک سال میں قلت کے باعث انسولین کی قیمت میں 45 فیصد تک اضافہ ہوا۔

کانفرنس سے سابق وفاقی مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا، پنجاب کے سابق نگران وزیر صحت پروفیسر جاوید اکرم، سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے صحت کے چیئرمین سینیٹر ہمایوں مہمند اور ڈریپ کے افسران نے خطاب کیا۔

اس موقع پر طبی ماہرین نے پاکستان میں مقامی طور پر انسولین کی پیداوار شروع کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان میں 100 فیصد انسولین بیرون ملک سے درامد کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے اس کی مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے اور اکثر قیمتوں میں بھی اضافے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

ماہرین نے انکشاف کیا کہ گزشتہ سال تقریباً 6 ماہ تک پاکستان میں انسولین دستیاب نہیں تھی، ایک سال میں انسولین تین مرتبہ مارکیٹ سے غائب رہی، انسولین نہ ملنے کے باعث ٹائپ ون ذیابیطس کے مریضوں کومشکلات پیش آئیں، گزشتہ سال انسولین کی قیمتوں میں اوسطاً 45 فیصد اضافہ ہوا۔طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ افراد ٹائپ ون ذیابیطس کے مریض ہیں، گزشتہ سال بروقت انسولین نہ ملنے کے باعث ٹائپ ون ذیابیطس میں مبتلا کئی بچے جاں بحق ہوئے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنی ضرورت کی 100 فیصد انسولین درآمد کرتا ہے، پاکستان کو اپنی ضرورت کی انسولین خود بنانی چاہیے، حکومت کمپنیوں کی مدد کرے۔