تین روز قبل روس کے دارالحکومت ماسکوکے کنسرٹ ہال میں چار حملہ آوروں نے گھس کر اندھا دھند فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک سو تینتالیس افراد ہلاک اور ایک سو اسی سے زائد زخمی ہوگئے تھے
تاہم اب سیکیورٹی فورسز نے چاروں حملہ آوروں کو گرفتار کرکے ان کی شناخت ظاہر کردی ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق چاروں حملہ آور کنسرٹ ہال میں آگ و خون کی ہولی کھیلنے کے بعد سفید رنگ کی رینالٹ کار میں فرار ہوگئے تھے جن کی گرفتاری کے لیے شہر بھر میں ناکہ بندی کی گئی تھی۔
روسی رکن پارلیمنٹ الیگزینڈر کھنشٹین کے بقول پولیس نے ماسکو سے تقریباً تین سو چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر برائنسک کے علاقے میں حملہ آورن کی گاڑی کو روکنے کی کوشش کی۔
مقابلے میں دو حملہ آور گرفتار اور دو فرار ہو گئے۔بعد ازاں روس کی فیڈرل سیکیورٹی سروس (ایف ایس بی) نے اعلان کیا کہ حملے کی تحقیقات کے دوران گیارہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں چار حملہ آور بھی شامل ہیں جب کہ بقیہ ان کے سہولت کار ہیں۔
ان چاروں حملہ آوروں کی شناخت انیس سالہ محمد صبیر،پچیس سالہ شمس الدین فریدونی، تیس سالہ سید اکرامی مرادلی، اوربتیس سالہ دلیر دزون مرزویف کے سے ہوئی ہے۔
ان سب کا تعلق تاجکستان سے ہے۔روسی سیکیورٹی فورسز نے چاروں ملزمان کو آج عدالت میں پیش کردیا جن میں سے تین پر فرد جرم عائد کرکے چاروں کو 22 مئی تک پولیس کی کسٹڈی میں دیدیا گیا۔
ان ملزمان کو عمر قید کی سزا ہوسکتی ہے۔قبل ازیں حملے کے فوری بعد سب سے پہلے امریکا نے حملوں کا ذمہ دار داعش خراسان کو ٹھہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ دو ہفتوں قبل ہی روس کو اس حملے سے آگاہ کردیا تھا۔
داعش نے بھی حملے کی ذمہ داری تسلیم کرتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر چاروں نقاب پوش حملہ آورں کی تصاویر اور حملے کی ویڈیو بھی جاری کی تھیں۔
اس کے برعکس روس نے امریکا اور پھر داعش کے ان دعوے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا بلکہ صدر ولادیمیر پوٹن نے بتایا تھا کہ حملہ آور یوکرین فرار ہونے کی کوشش کے دوران عین اُس وقت پکڑے گئے جب وہ سرحد پار کر رہے تھے۔
روس کی جانب سے یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ امریکا اس حملے میں کسی کو دانستہ ملوث کرکے اپنے اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن ہم تحقیقات کے مکمل ہونے تک کچھ بھی کہنے سے قاصر ہیں۔
دوسری جانب امریکا نے اپنے موقف کو دہرایا ہے کہ روس پر حملے نے ایک بار پھر داعش کے مکمل خاتمے کے لیے کارروائی کی ضرورت کی یاد دہانی کرائی ہے۔
یاد رہے کہ امریکا نے جس داعش خراسان کو حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے وہ افغانستان، پاکستان، ترکمانستان، تاجکستان، ازبکستان اور ایران میں اپنی خلافت قائم کرنا چاہتی ہے۔
نیو یارک میں مقیم انسداد دہشت گردی کے تجزیہ کار کولن کلارک نے نیویارک ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ داعش خراسان گزشتہ 2 برسوں سے روس پر کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔
تجزیہ کار کولن کلارک کے بقول داعش افغانستان، چیچنیا اور شام میں روسی فوجیوں کی کارروائی سے ناراض ہے اور صدر ولادیمیر پوتن پر مسلمانوں کا خون بہانے کا الزام عائد کرتی ہے۔
دوسری جانب یوکرین نے حملہ آروں کے یوکرین فرار ہونے یا کسی بھی طرح ملوث ہونے کے روسی الزامات کو مضحکہ خیز اور بالکل بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔