ملکی ترقیاتی پروگرام کو بظاہر سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جو اپنے بنیادی ڈھانچے کا ایک حصہ بھی پورا کرنے سے قاصر ہے، جب کہ بجٹ میں مختص رقم حلقوں کی سیاست اور خسارے کی مالی اعانت کی طرف جا رہی ہے، جسے قومی اقتصادی کونسل (این ای سی)کے فیصلوں کی خلاف ورزی سمجھا جارہا ہے۔
میڈیارپورٹ کے مطابق وزارت منصوبہ بندی وترقی اور سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی (اے پی سی سی) کی جانب سے این ای سی کے سامنے ایک باضابطہ سمری پیش کی گئی ہے، جس میں وزارت خزانہ کو قومی ترقی میں رکاؤٹ ڈالے بغیر این ای سی کی جانب سے دی گئی مالی حدود کے اندر رہنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
اس سمری میں خاص طور پر وزارت خزانہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’جہاں بھی ضرورت ہو فارن ایکسچینج کمپوننٹ (ایف ای سی) کور فراہم کرے اور ترقیاتی اخراجات کو کفایت شعاری کے اقدامات سے مستثنیٰ قرار دے‘، جب کہ نقد ترقیاتی قرضوں (سی ڈی ایل) کے ذریعہ کٹوتی نہ کی جائے اور ایک مخصوص سال کے دوران ترقیاتی فنڈز کو غیرترقیاتی کاموں کی جانب نہ منتقل کئے جائیں۔
سمری میں تجویز کیا گیا کہ وزارت خزانہ کی جانب سے بنیادی توازن کے ہدف کو عبور کرنے پر فخرکیا جانا چاہیے جو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے وعدے سے کافی زیادہ ہے، گزشتہ مالی سال کے دوران ترقیاتی منصوبوں کی لاگت میں اضافہ، سالانہ ڈیڈلائن میں تاخیر سے نمایاں طور پر نقصان ہوا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ سال کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کو این ای سی اور پارلیمنٹ کی طرف سے منظور شدہ 950 ارب روپے کی مختص رقم کو 25 فیصد کم کرکے 717 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
اس پس منظر میں، اگلے سال کے لیے پی ایس ڈی پی کو کئی اہم چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا، وزارتوں اور ڈویژنوں نے 28 کھرب روپے کے مطالبات پیش کیے کیونکہ پروجیکٹ تھرو فارورڈ 2013-14 میں 30 کھرب روپے کے مقابلے اس سال 98 کھرب روپے تک پہنچ گیا۔ پی ایس ڈی پی کی مختص رقم اور اخراجات کا حجم اس دہائی کے دوران 630 ارب روپے کے اوسط پر جمود کا شکار رہا۔اس رفتار کے ساتھ، پہلے سے زیر عمل منصوبوں کو مکمل ہونے میں 16 سال لگیں گے، لیکن اس کے لیے شرط ہے کہ کوئی نیا منصوبہ شروع نہ کیا جائے۔