اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق ڈپٹی گورنر ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے وفاقی شرعی عدالت کے سود پر مبنی پراڈکٹس کی توثیق کے فیصلے کی تائید کرنے پر اسلامی نظریاتی کونسل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
چیئرمین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے ایک بیان میں کہا کہ وفاقی شرعی عدالت نے 28 اپریل 2022 کے سود پر مبنی اورشرعی اصولوں سے متصادم فیصلہ سنایا جس کی اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے تائید و تحسین کی گئی۔
انہوں نے اعتراض کیا کہ وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے میں بلا تحقیق اسلامی بینکوں کی کچھ ایسی پراڈکٹس کی بھی توثیق کر دی گئی ہے جو شرعی اصولوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں یا ان میں سود کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے چنانچہ اس فیصلے سے اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے سودی نظام کو فروغ حاصل ہوتا رہے گا۔
سابق ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ سودی بینکوں اور اسلامی بینکوں کا ساتھ ساتھ کام کرنے کا نظام بلاشبہ غیر اسلامی ہے، آئین کی شق 38 (ایف) میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ معیشت سے جلد از جلد ربا کا خاتمہ کردیا جائے چنانچہ پارلیمنٹ کی منظوری سے اس شق میں یہ اضافہ کردیا جائے کہ سود ہر شکل میں ربا کے زمرے میں آتا ہے۔
اس کے بعد شرعی عدالتوں میں سود کے حرام نہ ہونے کا معاملہ زیر بحث لایا ہی نہیں جاسکے گا۔انہوں نے زور دیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ سپریم کورٹ نے ربا کے مقدمے میں اپنے 23دسمبر 1999 کے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے 30 جون 2002 تک کی مہلت دی تھی لیکن یہ مقدمہ آج بھی سپریم کورٹ میں لمبے عرصے سے التواء کا شکار ہے۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں طاقتور طبقے نہیں چاہتے کہ معیشت سے سود کا خاتمہ ہو کیوں کہ اس سے ان طبقات کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے تقریباً 20 برس بعد جو فیصلہ 28 اپریل 2022 کو سنایا ہے وہ نہ صرف غیر اسلامی ہے بلکہ اس فیصلے میں جھول بھی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 30 جون 2002 کو پاکستان کے مجموعی قرضوں و ذمہ داریوں کا حجم صرف 3856 ارب روپے تھا جو 31 دسمبر 2023 کو 81000 ارب روپے ہوگیا۔ ان سودی قرضوں کو بلا سودی قرضوں میں منتقل کرنا آسان کام نہیں ہوگا، خدشہ ہے اگروفاقی شرعی عدالت کا یہ فیصلہ اور حکومت و اسٹیٹ بینک کی موجودہ پالیسیاں برقرار رہیں تو خدانخواستہ اس صدی کے اختتام پر بھی پاکستان میں سودی معیشت پروان چڑھ رہی ہوگی۔ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے اسلامی نظریاتی کونسل سے استدعا کی کہ وہ وفاقی شرعی عدالت کے 28 اپریل 2022 کے فیصلے کی تائید کرنے کے مؤقف پر نظرثانی کرے۔