جرمنی میں چاقو حملے کے بعد افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے پر غور

جرمنی میں ایک پناہ گزین کی جانب سے چاقو کے حملے میں پولیس اہلکار کی ہلاکت اور 5 افراد کے زخمی ہونے کے بعد جرمنی افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کی اجازت دینے سے متعلق غورکررہا ہے۔

مصدقہ میڈیارپورٹ کے مطابق جرمنی کے وزیر داخلہ نینسی فیسر نے صحافیوں کو بتایا کہ سنگین جرائم میں ملوث افراد کو واپس افغانستان بھیجنے کی اجازت دینے کے لئے گزشتہ کئی ماہ سے جائزہ لے رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ میرے لئے یہ بات بالکل واضح ہے کہ جو لوگ جرمنی کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، انہیں فوری طور پر ملک بدر کیا جانا چاہیے۔جرمن وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم جرائم میں ملوث عناصر اور خطرناک لوگوں کو شام اور افغانستان ڈی پورٹ کرنے کے طریقے تلاش کرنے کی ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے جرمنی سے افغانستان میں ملک بدری مکمل طور پر روک دی گئی ہے۔

تاہم، 25 سالہ افغان باشندے کی جانب سے جرمنی کے مغربی شہر مانہیم میں اسلام مخالف ریلی کے دوران لوگوں پر چاقو سے حملہ کرنے کے الزام کے بعد ڈی پورٹ کا عمل دوبارہ شروع کرنے پر بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔

وہاں موجود ایک پولیس اہلکار نے جب حملہ آور کو روکنے کی کوشش کی تو اس بار متعدد بار چاقو سے وار کئے گئے جس سے وہ ہلاک ہوگیا۔اس کے علاوہ، اسلام مخالف مہم چلانے والے گروپ ’پیکس یورپا‘ کی جانب سے نکالی گئی ریلی میں شریک 5 افراد بھی چاقو کے وار سے زخمی ہوئے۔

اس حملے کے بعد یورپی انتخابات کے دوران امیگریشن پر عوامی بحث کا آغاز ہوا اور مجرموں کو ملک سے نکالنے کی کوششوں کو وسعت دینے کے لیے زور دیاجارہا ہے۔حملہ آور کا نام سلیمان عطائی بتایا گیا جو مارچ 2013 میں ایک پناہ گزین کے طور پر جرمنی آیا تھا۔جرمن روزنامہ بِلڈ کے مطابق سلیمان عطائی صرف 14 سال کی عمر میں اپنے بھائی کے ساتھ جرمنی آیا تھا، اسے ابتدا میں سیاسی پناہ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا، لیکن اس کی عمر کی وجہ سے ملک بدر نہیں کیا گیا۔

اسپیگل ہفتہ وار کے مطابق سلیمان نے جرمنی میں اپنی تعلیم حاصل کی اور 2019 میں ترک نژاد جرمن خاتون سے شادی کی، جس سے اس کے 2 بچے ہیں۔