برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں وہ گوہر نایاب موجود ہیں۔ جن کی روشنی اور تابناکی سے ارض پاک کاایک ایک ذرہ روشن وتاباں ہے۔ آج ہم تذکرہ کررہے ہیں ایک ایسے فاتح اعظم کا جس کا نام وقت کی گزرگاہوں میں گونجتا ہے۔
سندھ کے عظیم روحانی پیشوا پیر صبغت اللہ شاہ راشدی، جو سوریہ بادشاہ (بہادر بادشاہ) کے نام سے مشہور ہیں، نے 1930-1943 کے دوران برطانوی نوآبادیاتی ریاست کے خلاف ایک طاقتور حر مزاحمتی تحریک کا آغاز کیا۔
یہ سوریہ بادشاہ افسانوی شہرت کی حامل شخصیت ہیں۔جن کی میراث آنے والے کئی زمانوں تک پھیلی ہوئی ہے۔تحریک آزادی میں آپ کا کردار ہمت، دانشمندی، اور انصاف کے حوالے سے اس عزم بالجزم کا آئینہ دار ہے۔
جس کے سائے میں حقیقی تصور ِ آزادی اور عوامی فلاح و بہبود ایک عظیم الشان روشن خیال حکمرانی کے ما تحت پروان چڑھی۔آپ ایک ایسے راہنماکے طور پر ابھرے جواپنی رعایا کے ساتھ رحمت و شفقت کے لئے جانا جاتاتھا اور جوانمول سندھی ثقافت کا پاسبان اورفکری راہ ِ عمل کاایستادہ منارہ ء نور تھا۔
لیکن عظیم سوریہ بادشاہ کی عظمت صرف محل کی دیواروں تک محدود نہیں تھی۔ آپ بلاکے جنگجو بہادری،دیانتداری اور دانائی کی لازوال قابلیتوں کے ہمراہ اپنی حرقوم کے سپاہیوں کی قیادت مردِآہن کی طرح فرماتے رہے۔
انگریزوں سے اپنی زمین کو آزاد کرانے کے لئے مسلح جدوجہدکا عملی راستہ اپناکرجنگ کے زمانے میں،آپ کی حکمت عملی،مہارت اور ناقابل تسخیر جذبے نے پوری حرقوم کو ناقابل بیان مشکلات سے نبرد آزماہونے میں زبردست مدد دی۔
حر تحریک کا نعرہ سوریہ بادشاہ کی عطاتھی، ”وطن یا کفن، آزادی یا موت” (ہماری سرزمین یا تابوت، آزادی یا موت)۔یہ تمام نعرے مادر ِ وطن سے لاانتہا محبت اور قومی شناخت کی عکاسی کرتے ہیں۔
سوریہ بادشاہ کی قیادت میں آپ کے ہزاروں پیروکاروں (مرد و خواتین) نے برطانوی راج کے خلاف عملاً بغاوت کی اور سندھ سے انگریز حکمرانوں کو نکال باہر کرنے کی جدوجہد کا آغاز کیا۔حر تحریک کا مرکز سندھ کے وسطی اور زیریں حصے خاص طور پر موجودہ ضلع سانگھڑ تھا۔
حروں کی بغاوت کچلنے کے لیے برطانوی حکومت نے نہ صرف انتہائی حد تک تشدد کامظاہرہ کیا بلکہ سوریہ بادشاہ کو قید بھی کرلیا۔ 1942 میں انگریز حکومت نے سندھ اسمبلی میں حر فوجداری ایکٹ پاس کیا اور پہلی بار سندھ میں مارشل لاء نافذ کیا گیا۔کہا جاتا ہے کہ بغاوت کو دبانے کے لیے ہزاروں حر جنگجوؤں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، قید کیا گیا اور موت کی سزا دی گئی۔
سوریہ بادشاہ مختلف مواقع پر 1930 سے 1943 تک مختلف جیلوں جیسے پونا، مدنا پور، رتناگری، راج شاہی اور ڈھاکہ میں بھی قید رہے۔جہاں انہوں نے برصغیر کے مختلف رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔ 1938 میں آٹھ سال کی قید کے بعد سوریہ بادشاہ سندھ آئے۔ اور باقاعدہ طور پر جدوجہد آزادی کو منظم اور متحرک کرنا شروع کیا۔ 1940 میں جب جدوجہد اپنے عروج پر تھی تو انہیں دوبارہ کراچی سے گرفتار کر کے موجودہ ہندوستان کی ناگپور جیل بھیج دیا گیا۔14 جنوری 1943 کو انہیں واپس سندھ لایا گیا۔اور حیدرآباد جیل منتقل کر دیا گیا۔
برطانوی حکومت نے ان کے خلاف غداری کا مقدمہ شروع کیا اور مارشل لاء کی عدالت میں صرف 26 دن جاری رہنے والے اس مقدمے میں انہیں موت کی سزا سنائی گئی۔ 20 مارچ 1943 کو حر تحریک کے عظیم اور آزادی پسند رہنما کو حیدرآباد جیل میں پھانسی دے دی گئی۔آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے