“Kachhay kay Daaku” abduct citizens by tricking them into buying cars, cattle, and sometimes using feminine voices

وطن ِ عزیز میں کچے کے ڈاکو اپنی غیر قانونی سرگرمیوں اور اور انتہائی سنگین وارداتوں میں ملوث ہونے او ر زیادہ تر وارداتوں میں کامیابی کے باعث انتہائی مشہور ومعروف ہیں۔

اس ضمن میں سندھ اورپنجاب میں کچے کے علاقے سالہاسال سے ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہ سمجھے جاتے ہیں۔

دوسری جانب سوشل میڈیا کے زبردست پھیلاؤکے بعد ڈاکوؤں کی جانب سے ان کی سرگرمیوں کے لئے سوشل میڈیا کے استعمال نے نت نئے مواقع فراہم کردیئے ہیں۔

اور انھیں معصوم شہریوں کو جھانسا دے کر اغوا کرنا نہایت آسان ہوگیاہے۔آپ کی معلومات کے لئے بتاتے چلیں کہ یہ کچے کے ڈاکو کس کس طرح سے شہریوں کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں۔

اور پھر اغوا برائے تاوان کے ذریعے ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی ہتھیا نے میں ذرا نہیں چوکتے۔ان خطرناک ڈاکوؤں کے گروہ اپنے شکار کی تلاش کے لئے سوشل میڈیا کے ذریعے کبھی سستی گاڑیوں کا اشتہار دے کر شہریوں کوپھانستے ہیں۔

توکبھی مویشیوں کی خریداری،کبھی لڑکیوں کی آوازکے ذریعے نو گو ایریا زمیں بلاتے ہیں۔اور پھر اغواکر کے خطرناک صورتحال سے دوچار کرتے ہیں۔

ڈاکوؤں کی جانب سے مغویوں کی ویڈیوز وائرل کی جاتی ہیں، خوف و ہراس پھیلا کر اور مغویوں کے گھر والوں تک یہ تکلیف دہ مناظر پہنچاکر لاکھوں روپے تاوان طلب کئے جاتے ہیں۔اور پھر اس پلید اور گھناؤنے کھیل سے لاکھوں کے داؤ لگائے جاتے ہیں۔

تاہم پولیس حکام بھی سوشل میڈیا کی اہمیت سے غافل نہیں ہیں۔اوراس سلسلے میں سوشل میڈیا پر نظررکھنے کو ترجیحات میں شمار کرتے ہیں۔

ترجمان پولیس کے مطابق فون کالز ٹریس کرکے چند ہی ماہ کے دوران لڑکیوں کی آوازکے جھانسے اور دیگر پرکشش آفر میں پھنساکر ملک کے مختلف شہروں سے آنے والے چار سو اسی افراد کو ڈاکوؤں کی دسترس میں پہنچنے سے قبل بچا لیاگیا۔

اس حوالے سے پولیس حکام کے مطابق کچے کے ڈاکوؤں کی تلاش میں ایک الگ سائبرکرائم یونٹ بھی تشکیل دیا گیا ہے۔

ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جدید ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ڈرون کیمروں، ڈرون اسلحہ سمیت ٹیلی کمیونیکیشن میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد فراہم کی جائے تو قیمتی انسانی جانوں کوبچایا جاسکتاہے۔ اور کچے کے علاقوں کو ڈاکوؤں سے محفوظ ومامون بنایا جا سکتا ہے۔