ایک معاشرے کے طور پریقینا ہم اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر احتساب اور شفافیت کے بارے میں فکر مند ہونے ہونے کا حق رکھتے ہیں۔
تاہم یہ تسلیم کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے کہ کسی اعلیٰ عہدے پرفائز پولیس آفیسرکی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی فطری طور پر چیلنجنگ اور پیچیدگیوں سے بھرپورہوتی ہے۔
جس میں اکثر وبیشتر دباؤ والے حالات وکیفیات میں رہتے ہوئے الگ الگ فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔دوسری جانب محکمانہ اور غیر محکمانہ سازشیں ہر آن بے بنیاد افواہیں یا غلط باتوں کو پھیلانے اور ساکھ کو خراب کرنے کے درپے ہوتی ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں جس طرح پولیس کے نظام کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے اس سے ہم سب آگاہ ہیں۔عوام کو پولیس سے متنفر کرنے کے لئے خطرناک مافیاز اور بڑے بڑے کرمنلز گروپ ہر لمحہ تیار رہتے ہیں۔
بلا شک بعض معاملات میں غلطیاں ہوسکتی ہیں۔لیکن ہمیں فیصلہ کرتے ہوئے حقیقی غلطیوں اور جان بوجھ کر غلط برتاؤ کے درمیان فرق کرنا بہت ضروری ہے۔
آج کل جس طرح ڈی آئی جی غلام اظفر میہسر صاحب کی کردار کشی کی مہم سوشل میڈیا پربے ہنگم انداز میں رقص کررہی ہے۔ یہ بھی انھی مافیاز اور کرمنل گروپ کی منصوبہ بندی کانتیجہ ہے۔
وگرنا کون نہیں جانتا کہ ڈی آئی جی غلام اظفر میہسر صاحب ایک قابل اور صاحب کردار نیک نام پولیس افسر ہیں۔لیکن ان پر غیر منصفانہ دباؤ ڈالنے اوراپنی مرضی کی کارروائی کروانے کے لئے کچھ گروپس فعال ہیں۔
اوراب یہاں تک کہ ان کے بیٹے کے حوالے سے کچھ مبینہ ویڈیوزسوشل میڈیا پر وائرل کی جارہی ہیں۔جوکہ صریح جھوٹ پر مبنی ہیں۔
آئیے بطور ذمہ دار شہری کوشش کریں کہ ان بے بنیاد اورسراسر جھوٹے الزامات پر مبنی ویڈیوز کو پھیلانے گریز کریں۔
اورایسی کوئی نیوز فارورڈ کرنے سے قبل یاد رکھیں کہ یہی پولیس آفیسرزہماری کمیونٹیزکی حفاظت کے لئے ہر روز اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں۔اورہماری جانب سے انھیں وہی عزت و احترام ملناچاہیے جس کے وہ حقدار ہیں۔