کراچی میں ڈکیتوں نے ایک اور جوانِ رعنا مارڈالا

لے کے رہیں گے پاکستان ……بٹ کے رہے گا ہندوستان۔کس قدر جذبہ حب الوطنی سے سرشار نعرہ ہے یہ…… کیا لہو میں گرماہٹ نہیں پیدا کردیتا؟ ……آج بھی اگراسے بلند آہنگ میں پڑھو یا سنو تو تحریک پاکستان کی عملی جدوجہد کی مکمل تصویر سامنے آجا تی ہے۔

اس زندہ وپائندہ نعرے کے خالق کا نام ہے کیف بنارسی جو تحریک ِ پاکستان کے مخلص کارکن اور معروف شاعر تھے۔

تحریک ِ پاکستان سے تخلیق ِ پاکستان تک کے سفر میں گرد وغبار سے اٹے یہ گنج ہائے گراں مایہ آج سات دہائیاں گزرنے کے بعد کس طرح وطن ِعزیز پاکستان میں بے آسرا ہورہے ہیں۔

اس کا اندازہ اس جانکاہ خبر سے کر لیجئے کہ انھی کیف بنارسی کے پوتے جواں سال سیدعلی رہبر کو کراچی کی معروف جوہر چورنگی پردندناتے ہوئے سفاک ڈکیتوں نے موت کی نیند سلا دیا۔

سیدعلی رہبر جو دو بچوں کا باپ تھااور بینک کی ملازمت چھوٹنے کے بعد فوڈ پانڈا میں نوکری کر رہا تھا۔ گزشتہ رات ڈکیتوں نے ساری جمع پونجی چھینے کے بعد گولی مار دی۔

مقتول سید علی رہبر کے والدِ بزرگوار سید اختر حسین سروش نے بوڑھے ہاتھوں سے اپنے بیٹے کی خبر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی،اس شہر کے دو مزید بچے یتیم ہوگئے, پروردگار لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور مرحوم کی مغفرت فرمائے۔کہ اب اس شہر کے باسیوں کے پاس دعا کے علاوہ کوئی ہتھیار باقی نہیں بچا ہے۔

مظلوم مقتول کے دادا کیف بنارسی نے کس یقین سے کہا تھا” میں نے سب کے ہاتھ میں دیکھی محبت کی لکیر……کون کہتا ہے یہ دنیا پیار کے قابل نہیں “۔نوشتہ دیوار یہ ہے کہ کیا اب خود بخود اس شعر کی سچائی پر شبہ نہیں ہونے لگتا؟