صبح صبح چہل قدمی کے لیے باہر نکلا، تو موسم اچھاتھا، فضاء پرسکون تھی، ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی…… آلودہ شہر میں ایسا موسم کم ہی نصیب ہوتا ہے۔
چلتے چلتے یوں ہی ذہن میں سیاسی نقشے کھنچتے چلے جا رہے تھے، خیال آرہا تھا کہ آصف علی زرداری نے بھی کیا قسمت پائی ہے، کہ موصوف دو مرتبہ ”مردِاول“ رہنے کے بعد اب دوسری مرتبہ صدر بھی بن گئے ہیں۔ اس بات پر ہلکی ہلکی مسکراہٹ بھی چہرے پر پھیل رہی تھی۔ لیکن ماتھے پر شکن ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ پھر یوں لگا کہ جیسے ہم واپس پرانے دور میں چلے گئے ہیں جب ان دونوں خاندانوں کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ اب بھی سب کچھ ویسا ہی ہو رہا ہے۔ ہر جگہ انہوں نے اپنے بندے بٹھا لیے ہیں۔ اب صرف سینیٹ کا الیکشن ہونے والا ہے، اُس کی بھی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے، یعنی اگلے ماہ کے آغاز میں ہی سینیٹ کا الیکشن ہو جائے گا اور پھر دنیا دیکھے گی کہ سینیٹ چیئرمین بھی ان دونوں پارٹیوں میں سے منتخب ہوگا۔ الغرض میرے وطن میں ریکارڈ پر ریکارڈ بن رہے ہیں۔ مگر مجال ہے عوام کے بارے میں کسی نے سوچا ہو؟بلکہ جو کچھ اس وقت ملک میں ہو رہا ہے، ریکارڈز پر ریکارڈز بن رہے ہیں اُس سے عوام کا کیا لینا دینا؟
آپ خود دیکھ لیں کہ شہبازشریف دوسری مرتبہ وزیر اعظم بن گئے، اس سے عوام کو کیا ملا؟ نواز شریف تین مرتبہ وزیر اعظم بن کر ریکارڈ بنایا، اس سے عوام کو کیا ملا؟ پھر مزے اور تعجب کی بات دیکھیں دونوں بھائیوں نے مل کر پانچ مرتبہ اس ملک پر حکومت کی ہے،،،پھر دونوں بھائی چار مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب رہے۔پھر ایک مرتبہ شہباز شریف صاحب کا بیٹا وزیر اعلیٰ اور پھر ایک مرتبہ نواز شریف کی بیٹی وزیر اعلیٰ رہی……مگر عوام کے حصے میں کیا آیا؟ چلیں مان لیا ایک مرتبہ یا دو مرتبہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کی حکومت نہیں چلنے دی؟ تو کیا ہر مرتبہ ہی عوام کو ڈلیور کرنے میں یہ لوگ ناکام ہوئے؟ اور پھر بات یہیں ختم نہیں ہوتی، سمدھی اسحاق ڈار صاحب 4 مرتبہ وزیر خزانہ۔ پھر آپ بلال یاسین کو دیکھ لیں اور بھی جگہ جگہ سے رشتہ دار نکال لیں سبھی اعلیٰ عہدوں پر رہے ہوں گے۔ لیکن یہ ریکارڈز نہیں تو اور کیا ہیں؟ لیکن مجال ہے ملک کو بحرانوں سے نکال پائے ہوں۔
آپ پیپلزپارٹی کو دیکھ لیں،ایک مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ، پھر سول ایڈمنسٹریٹو مارشل لاء ذوالفقار علی بھٹو، پھر دو مرتبہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو، پھر صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو۔ پھر اُن کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ وزیر اعظم۔ پھر دو مرتبہ اُن کا داماد صدر پاکستان۔ نانا بھی وزیر خارجہ رہا اور پھر سب نے دیکھا بلاول کی شکل میں نواسہ بھی وزیر خارجہ رہا، یہ بھی ریکارڈ ہے، اس سے عوام کو کیا ملا؟ بات یہی ختم نہیں ہو رہی بلکہ ان کے وزراء جنہیں علم ہوتا ہے کہ اُن کی پارٹی کی حکومت آنے کے بعد اُنہیں لازمی وزارت سے نوازا جائے گا، وہ بھی درجنوں مرتبہ وزارتوں سے لطف اندوز ہو چکے ہیں۔ لیکن کیا کسی نے عوام کو ڈلیور کیا؟ اگر نہیں تو پھر عوام ان کے ساتھ کیوں چلے؟ کیوں وہ 8فروری کو انہیں ووٹ ڈالتی؟ خیر قصہ مختصر کہ یہ کوئی حکومتیں تو نہیں ہیں صرف اور صرف ہمارے سامنے تو یہ پی ایس ایل ہی چل رہا ہے کہ فلاں بیٹسمین نے اتنی سنچریاں بنا لیں، یا فلاں باؤلر نے اتنی وکٹیں لے کر ریکارڈ بنا لیا۔یا مجھے تو یہ لگ رہا ہے کہ یہ اولمپک گیمز ہو رہی ہیں جس میں کبھی امریکا نمبر ون ہوتا ہے، کبھی چین کے میڈلز زیادہ ہوتے ہیں تو کبھی روس یا جاپان کے۔لیکن اس سے کیا عوام کو ریلیف ملتا ہے؟ میرے خیال میں یہ ریکارڈ ان دونوں خاندانوں کا آپس میں مقابلہ رکھنے کے لیے بن رہے ہیں۔ آج یہ خبر بھی ہم نے پڑھی ہی کے زرداری صاحب نے اپنی بیٹی آصفہ کو ”خاتون اول“ قرار دیا ہے۔ کیا یہ ریکارڈ نہیں ہے؟ لیکن اس سے عوام کو کیا ملے گا؟ کیا اس سے یہ تاثر نہیں مل رہا ہے کہ یہ ملک ہی دو خاندانوں کی جاگیر بن کر رہ گیا ہے، حالانکہ ان کی 20سال سے سندھ میں حکومت ہے، مگر مجال ہے وہاں کے عوام کی حالت پر ناز کیا جائے؟ وہاں آج بھی بھوک اور ننگ کے ڈیرے ہیں۔
اور پھر ساری باتیں ایک طرف ان تمام خراب حالات کا ذمہ دار ایک شخص کو بنا دیا گیا ہے جس نے صرف ایک مرتبہ حکومت کی اور وہ بھی ساڑھے تین سال کے لیے۔ میری رائے میں اگر وہ اس ملک کے لیے اتنا ہی برا ہے تو پھر اُسے سنگسار کر دو۔ لیکن سوال پھر وہی ہے کہ کیا ایسا کرنے کے بعد آپ کے مسائل حل ہو جائیں گے؟ کیا فیصلہ کرنے والے یہ نہیں دیکھ رہے کہ اس الیکشن میں عوام نے ان کے یکسر مسترد کر دیا ہے، اور پھر یہی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کی بے اعتنائی پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ جنہوں نے نتائج میں تاخیر یا دوسری بے اعتدالیوں پر معذرت خواہانہ انداز تک نہیں اپنایا۔ یوں تو ہمارے ہاں شکست کو تسلیم کرنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے اور ہر الیکشن میں ہارنے والا دھاندلی کا الزام لگا کر احتجاج کا حق استعمال کرتا ہے تاہم اس الیکشن کے تو انداز ہی نرالے ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں اب کی بار دھاندلی عریانی کی حد تک عیاں تھی جس کا ثبوت یہ ہے کہ جیتنے والے بھی خوش نہیں ہیں اور ہارنے والے بھی ہجر کی سی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ ایسی صورتحال کے بعد دونوں پارٹیاں بھی یہ بات جانتی ہیں کہ اس وقت پی ٹی آئی کا ووٹر غصے میں ہے، وہ کسی بھی وقت لاوے کی طرح پھٹ سکتا ہے، تبھی تو یہ دونوں ”جمہوریت“ کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ مل چکے ہیں۔ اور دونوں اپنے تئیں عوام کو ساتھ ملانے کی ناکام کوشش بھی کر رہی ہیں۔ کیوں کہ دونوں پارٹیاں جانتی ہیں کہ وہ کیسے اقتدار میں آئی ہیں۔
اور پھر دونوں کو علم ہے پی ٹی آئی کو جتنا دبایا جائے گا وہ اتنی ابھر کر آئے گی۔ دونوں پارٹیاں چاہتی ہیں کہ کسی طرح پی ٹی آئی کے ساتھ حالات ٹھیک ہو جائیں مگر دونوں مجبور ہیں۔ پی ٹی آئی کو ان انتخابات میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ پتہ چل گیا ہے کہ قوم اس کے ساتھ ہے۔ قوم نے انتہائی نا گفتہ بہ حالات میں بھی پی ٹی آئی کو ووٹ دئیے ہیں۔ اب پی ٹی آئی کا ورکر پوری طرح چارج ہے۔ اگر نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے مجبوری کے عالم میں ان سے ٹکرانے کی کوشش کی تو ان کے عوامی خسارے میں مزید اضافہ ہو گا۔ بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ فارم 47والی حکومت کا دورانیہ کچھ زیادہ نہیں۔ یہ حکومت اگر دو ہزار چوبیس نکال جائے تو بہت بڑی بات ہو گی۔ لوگ اپنے ووٹ کی عزت کیلئے سڑکوں پر کسی وقت بھی نکل سکتے ہیں۔ وہ لوگ جنہیں پیپلز پارٹی نے پیر پگاڑا کے مریدین کہا تھا جو لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوئے تھے۔ وہ احتجاج کیلئے سڑکوں پر آنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن صرف رمضان کا مہینہ گزرنے کا انتظار کر رہے ہیں اور پی ٹی آئی رمضان میں احتجاجی افطاریوں اور سحریوں کے متعلق سوچ رہی ہے اور ہمارا مسئلہ ملک کی معیشت ہے۔ یعنی ان سب میں عوام کا مسئلہ کہاں ہے؟اس وقت رمضان شروع ہو چکا ہے، اور ہم اپنی عبادات سے درکنار خودکشیوں کا سوچ رہے ہیں۔ مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنا ایسی صورتحال میں بالکل ناممکن ہو جائے گا۔
میرے خیال میں اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہوش سے کام لیا جائے۔ مذاکرات کیے جائیں۔ پی ٹی آئی کے سیاسی قیدی رہا کیے جائیں اور ملک کو آگے بڑھایا جائے۔ ملک ایک گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ اسے نکالنا اشد ضروری ہے اور یہ کام سب سے بہتر انداز میں وہی کر سکتے ہیں جن کے پاس اختیار ہے۔ پاکستانی قوم کے تقریباً دو سال ضائع ہو چکے ہیں۔ نواز شریف کو دل بڑا کرکے اس مقصد کیلئے آگے آنا چاہئے۔ آصف علی زرداری ملک کے صدر بن چکے ہیں اب ان پر فرض ہے کہ قوم کی رائے کا خیال کریں۔ عوامی امنگوں کے مطابق فیصلے کریں۔ ظلم اور زیادتی کی فضا کو ختم ہونا چاہئے۔ عدالتوں کو اپنی عزت بحال کرنی چاہیے۔ ذاتی پسند و نا پسند کے مطابق کیے گئے فیصلوں کو دوبارہ دیکھنا چاہئے۔ صحافیوں کو فوری طور پر رہا کرنا چاہئے۔ سچائی کی آواز سلاخوں کے پیچھے دھکیل دینے سے زیادہ طاقتور ہو جاتی ہے۔ عمران ریاض اور اسد طور کی مقبولیت روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ پاکستانیوں کا مزاج یہی ہے کہ وہ ہر اس شخص کے ساتھ ہوتے ہیں جسے مظلوم سمجھتے ہیں۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا تھا تو پاکستانی قوم اس کی بیٹی کے ساتھ کھڑی ہو گئی تھی۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تو قوم نے آصف علی زرداری کو صدر پاکستان بنا لیا تھا۔ جب عمران خان کو سزائیں سنائی گئیں۔ پی ٹی آئی سے اس کا نشان تک چھین لیا گیا تو پوری قوم نے کھمبوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ووٹ دئیے۔ قوم کا مزاج سمجھنے کی کوشش کیجئے اور ملک کو آگے بڑھائیے وگرنہ وقت کسی کو معاف نہیں کرتا۔ ذوالفقار علی بھٹو آج قانونی طور پر شہید ثابت ہو چکا ہے۔ آنے والے کل میں اس کے قاتلوں کا تعین بھی قانون کو کرنا پڑے گا۔ورنہ اس ملک کو ریورس گیئر لگ جائے گا۔ اور ریورس گیئر کسی ملک کے لیے اچھا نہیں ہوتا، ریورس گیئر لگے تو ترقی رک جاتی ہے، سسٹم آگے نہیں بڑھتا۔ دنیا اسے ریورس سٹیٹ سسٹم کا نام دیتی ہے جہاں ترقی کا سفر رک جاتا ہے بلکہ بعض اوقات زوال کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسا نظام جو ترقی کے بجائے تنزلی کو فروغ دیتا ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو تبدیلی سے گریز کرتا ہے۔ نئی راہوں اور وسائل کو اپنانے میں پس و پیش کرتا ہے اور موجودہ ڈھانچے کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے۔ ایسا نظام نہ صرف ٹیکنالوجی اور علوم سے استفادہ کرنے میں کوتاہی کرتا ہے بلکہ عوام کی ترقی کیلئے ضروری اصلاحات بھی نہیں لا سکتا۔ اس کے نتیجے میں معاشی جمود پیدا ہو جاتا ہے جس کا ہم شکار ہوئے۔اور خدارا اسے مزید تباہی سے بچایا جائے!
علی احمد ڈھلوں