ہم پاکستانیوں کے ساتھ عجیب ستم انگیز خوبی ء تقدیر رہا کرتی ہے۔خواہ ہم تین میں ہوں نہ تیرہ میں بوجھ سہارنا ہمارے کاندھوں کو ہی پڑتا ہے۔
بحیثیت ایک محب وطن آپ کے لئے یہ خبر تکلیف کا باعث ہوگی۔کہ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان اس وقت دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ موسمیاتی خطرات کا شکار ملک ہے۔ اور کرہّ ارض پر ہم ہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے 1999 سے 2018 کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تقریباً دس ہزار جانوں کے ضیاع کا دکھ بھی سہا ہے۔اور 3.8 بلین امریکی ڈالر کا معاشی نقصان بھی اٹھایاہے۔
ہما را وطن جغرافیائی مناظر کی ایک وسیع رینج کاایسا گھر ہے جہاں ہر کسی کوکو مختلف موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ابھی گزشتہ دنوں برطانوی ہائی کمشنر مس جین میریٹ نے موسمیاتی تبدیلیوں سے آگاہی میں صحافیوں کے کردار کے موضوع پر منعقد ہونے والے آغا خان روڈ کے فائیو اسٹار ہوٹل میں ورکشاپ کے نام اپنے ویڈیو پیغام میں نہایت گراں قدر خیالات کا اظہار کیا۔
برطانوی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں میں پاکستان کا کردار کم مگر نقصانات انتہائی زیادہ ہیں۔اس کے ساتھ انھوں نے یقین دلایا کہ برطانیہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے پاکستان کیلئے ہر طرح کا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہے۔ اوریہ کہ برطانوی ترجیحات میں اولین ترجیح پاکستان کے نقصانات کا ازالہ ہے۔برطانوی ہائی کمشنر نے انتہائی تاسف انگیز انداز میں فرمایا کہ پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جس کا عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں میں نہ ہونے کے برابر رول ہے۔ لیکن ان موسمیاتی تبدیلیوں سے پوری طرح متاثر ہونے والے ملکوں میں پاکستان سرفہرست ہے۔
جس طرح مس جین میریٹ کا پاکستان سے کھلے بندوں ہمددری اور اخلاص کا اظہار تھا۔ہم معصوم پاکستانی ابھی تک موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانا ت کو اس طرح سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں۔زمین پر ہونے والے پے درپے سانحات اورخطرناک موسمیاتی تبدیلیوں نے ہماری زمین کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور اس حوالے سے عالمی ادارے کا انتباہ بھی سامنے آچکا ہے۔
لیکن معصوم ہم وطن ان تبدیلیوں کو خطرے کا الارم گردان ہی نہیں رہے ہیں۔دوسری جانب صاحبان ِ اقتدار بھی اس حوالے سے خواب ِ خرگوش کے مزے لیتے دکھائی دیتے ہیں۔حالانکہ حالات وواقعات وطن ِ عزیز اور اہل وطن کے حق میں نظر نہیں آرہے ہیں۔موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سال 2024کاگزشتہ مہینہ فروری انسانی تاریخ کا گرم ترین فروری قراردیا گیا ہے۔
ہمیں بیرون ملک سے تو امداد اور فلاح وبہبود کے پیغامات موصول ہورہے ہیں۔لیکن ہمارے میڈیا نمائندے اور ارباِب اقتدار ان شدید موسمیاتی تبدیلیوں کو اپنا موضوع ِ سخن بناتے نظر نہیں آتے۔
اگرچہ مس جین میریٹ ورکشاپ کے موقع پر کراچی میں اپنی شدید مصروفیات کے باعث نہیں پہنچ سکیں تھیں۔ لیکن انھوں نے اس موضوع کی انتہائی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ویڈیو پیغام ریکارڈکرانا لازم سمجھا جسے ورکشاپ میں موجود ملک بھر کے صحافیوں کی موجودگی میں ملٹی میڈیا پرحرف بہ حرف سنایا گیا۔