گزشتہ ہفتے بدھ کو اسلام آباد میں منعقدہ ایک کانفرنس میں وزیراعظم میاں شہباز شریف نے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کردیا۔ اگرچہ 18ویں ترمیم کے ماتحت تعلیم خالصتاً ایک صوبائی معاملہ ہے لیکن وزیر اعظم کے بیانیہ کے مطابق یہ تعلیمی ایمرجنسی سارے ملک کے لئے ہے اوراس کو پایہ ء تکمیل تک پہنچانے کے لئے باہمی تعاون،اور سرگرم عمل ہوکرتمام صوبوں اور وزرائے اعلیٰ مل کر کام کریں گے۔
جس کانفرنس میں وزیراعظم نے یہ بات کہی اس میں تمام صوبوں کے نمائندگان بھی شریک تھے۔موجودہ صورتحال کے تحت ملک میں 5 سے 16 سال کے درمیان تقریباً دو کروڑ 62 لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ اور جو اسکول جاتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر کو معیاری تعلیم فراہم نہیں کی جارہی۔
معیاری تعلیم تک رسائی کا انحصار، والدین کی آمدنی پر ہے کہ جتنی آپ کی آمدنی ہے اسی کے مطابق آپ اپنے بچے کو اسی معیار کی تعلیم مہیا کر سکتے ہیں۔ بصورت دیگر آپ کا بچہ یا تو اسکول نہیں جائے گا یا کسی سرکاری یا کم فیس والے نجی اسکول میں تعلیم حاصل کرے گا۔یاد رہے کہ آرٹیکل اے-25 ملک میں 5 سے 16 سال کی عمر کے تمام بچوں کو ’مفت اور لازمی‘ تعلیم مہیا کرنے کے لئے پابند کرتاہے جسے 2010ء میں ہمارے آئین کے بنیادی حقوق کے حصے میں شامل کیا گیا تھا۔ 14 سال بعد ہم نے آئین میں اپنے بچوں کو جس بنیادی حق دینے کا وعدہ کیا تھا،آج اسے پورا کرنے کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کررہے ہیں!
اس سے پہلے اپنی تقریر میں وزیراعظم نے اسے مجرمانہ غفلت قرار دیا تھا۔ جہاں تک ملک میں تعلیم کی موجودہ حالت کا تعلق ہے تو بلاشبہ صورت حال سنگین اور خطرناک ہے۔
آج بھی جب بین الاقوامی ادارے تعلیم پر جی ڈی پی کا کم از کم چار فیصد خرچ کرنے کی سفارش کرتے ہیں تو ہماری حکومت ایک اعشاریہ سات فیصد یا اس سے تھوڑا زیادہ ہی خرچ کرتی ہے۔ تاہم ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے کچھ نہیں بتایا گیا کہ حالات سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کئے جائیں گے، پالیسی میں کیا تبدیلیاں ہوں گی اور ریاست تعلیم پر کب اور کیسے زیادہ سرمایہ کاری کرے گی۔