کیا ایرانی صدر،وزیر خارجہ اور اعلیٰ عہدیداران کا ہیلی کاپٹر کریش خفیہ قتل ہے؟

سوشل میڈیا پرجس طرح متواتر ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کے لاپتہ ہونے کی خبریں گردش کرتی رہیں۔اور خود ایرانی عوام وخواص نے مستقل صدر ابراہیم رئیسی اور رفقاء کی خیریت سے متعلق ایک وسیع رد عمل کا اظہا رکیا۔اور بالآخر اس گمشدگی کا اختتام ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہونے اوروزیر خارجہ اور دیگر اعلیٰ عہدیدار ان کی ناگہانی اموات پر ہوا،

اس جانکاہ حادثے کا باعث موسم کی خرابی کو بتایا گیااور حادثے کا مقام ایران کا شہر تبریز، بتایا یہی گیا کہ خراب موسم کے باعث ہیلی کاپٹر کے حادثے کے مقام کا پتہ لگانے میں تاخیر ہوئی،اور ریسکیو ٹیمیں انتہائی تاخیر سے جائے حادثہ پر پہنچ سکیں۔

ہیلی کاپٹر کے لاپتہ ہونے کی شروعات سے لے کر حکومت کی طرف سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے امید ظاہر کی گئی کہ صدر اور ان کے رفقاء خیریت سے سلامت بخیر ہوں گے۔

لیکن کیا آپ آسانی سے یقین کرپائیں گے کہ ایک ایسا ملک جو دنیا کی سپر پاور ز سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتاہے ا ور جدید ٹیکنالوجی کے حصول و استعمال میں اس کا نمبر شروع کے دس بارہ ممالک میں آتا ہے اتنی آسانی سے اپنے صدر،وزیر خارجہ او ر انتہائی اہم ترین دیگر عہدیدران کو بنا سیکورٹی نہایت خراب موسم کے حوالے کیسے کر سکتاہے؟

اس کا ایک تجزیہ تویہ بھی بنتا ہے کہ حکومت خود کسی خفیہ قاتلانہ کوشش کے پیچھے تھی اورکئی اطراف سے اس ناگہانی سانحے کے سانحے کی غیر مصدقہ خبر پر خوشی کا اظہار بھی کیاگیا۔ایران کے آذربائیجان کے علاقے میں ایرانی صدرابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کی ”ہارڈ لینڈنگ” سے متعلق افواہوں نے ایرانی عوام کی جانب سے ایک وسیع تر ردعمل کو جنم دیا۔ ایرانی حکومت کی جانب سے مسلسل صدر ابراہیم رئیسی کے لئے امیدوں اور دعاؤں کا اظہار کیاجاتارہا۔

بعض حکومتی حلقوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ”پہلا میڈیا جس نے صدر ابراہیم رئیسی کے سانحے کو رپورٹ کیا اسرائیلی میڈیا تھا،خاص طور سے ایک ایکس اکاؤنٹ کا حوالہ بھی دیا گیا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ صدر ابراہیم رئیسی ”ایک قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے ہیں۔

دوسری جانب کچھ ایسے تجزیہ نگاروں کی رائے میں جو حکومت کی مخالفت کرتے ہیں حادثے کے بارے میں سازشی نظریات کا جادوسر چڑھ کر بولتا رہا۔ان سازشی نظریاتیوں کا کہنا تھا کہ اسلامی حکومت کے حکام نے صدر ابراہیم رئیسی کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا،اسی ضمن میں ایک اور شخص نے حادثے کی خبر کے ساتھ ایران کے سابق صدر روحانی کی تصویر بھی پوسٹ کی، جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ روحانی کا اس معاملے میں عمل دخل موجود ہے۔

اسی طرح یہ خبر بھی سامنے آئی کہ ایک خفیہ کیمرہ صدر کے ہیلی کاپٹرکے تباہ ہونے کی خبروں پر لوگوں کا ردعمل جاننے کی کاوشوں میں مصروف ِ کا ر تھا۔ایک اور ایسا گروپ بھی متحرک تھاجو اسلامی جمہوریہ ایران کی موجودہ قیادت کی مخالفت کرنے والے کارکنوں پر مشتمل تھا،اور اس گروپ نے ڈھکے چپھے الفاظ میں اس شک بھر ی امید کا اظہار کیا کہ ایرانی وزیر اعظم صدر کو زندہ بازیاب نہیں کریں گے۔

ایران میں اس سانحے پر ملاجلا ردعمل دیکھنے میں آیا۔ایک شخص نے سوشل میڈیا پر ”ہیلی کاپٹر” کے عنوان سے گانے پر رقص کرتی ہوئی چند خواتین کی ویڈیو بھی پوسٹ کی۔ یہاں ہم ذکر کرتے چلیں کہ اس وقت ایران کی زمام ِ اقتدار قطعاً ان لوگوں یا ان لوگوں کے جانشینوں کے ہاتھوں میں نہیں ہے جو 1979کے انقلابِ ایران کا موجب تھے یا وہ لوگ جو امام خمینی کے ہمراہ تھے۔

انقلاب میں شریک زیادہ تر شخصیات کوپہلے ہی انقلاب کے شروع کے ایام میں ہی جلاوطن یا قتل کر دیا گیا تھا اور اس میں خود امام خمینی کی رضامندی بھی شامل رہی تھی۔حقیقتاً آیت اللہ خمینی کے ہمراہ یکم فروری سنہ 1979 کو تہران پہنچنے والی اکثر شخصیات کو انقلاب کے بعد سیاسی حالات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا تھا۔ اور ان اہم ترین شخصیات میں سے دو کو قتل کردیا گیا، ایک کو پھانسی دی گئی، ایک کی پراسرار ہلاکت ہوئی اور ایک کو جلاوطن کردیا گیا۔

یہ وقت کی ستم ظریفی ہے کہ آیت اللہ خمینی کے سفرانقلاب میں شامل تمام لوگ حتٰی کہ امام خمینی کے اپنے خاندان نے بھی ایران کے حکمران طبقے سے دوری اختیار کر لی تھی۔اور ایران کے ایوان ِ اقتدارمیں اب و ہ یا ان کی اولادوں میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے