تبدیلی کے ماہ وسال: حیض سے مینو پاز تک

اگر آپ کے لئے اس آرٹیکل کا عنوان بے چینی کا باعث ہے تو پھر ہمیں اس موضوع پر بات کرنے کی لازمی ضرورت ہے۔کیونکہ ہمیں علم ہے آج بھی، 21ویں صدی میں، بے شمار لوگ ماہواری اور رجونورتی یا حیض کے مستقل بند ہوجانے کے بارے میں بات کرنے کوشجر ِ ممنوعہ جانتے ہیں۔آئیے زندگی کی اس ٹھوس حقیقت کو سمجھیں اورناروا خاموشی کو توڑدیں۔
درحقیقت ماہواری یا حیض کی شروعات سے حیض کے بند ہونے تک کا سفرکسی بھی عورت کی زندگی کے اہم اور یادگارمراحل کواپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔خواہ ان کی نوعیت جسمانی ہو یا جذباتی ایک عورت جسم میں آنے والی ہارمونل تبدیلیوں سے لے کرسیلف ایڈجسٹمنٹ تک زندگی کے نان اسٹاپ رولر کوسٹر سے گزرتی ہے اور یہی اس کا کل سرمایہ ء حیات بھی ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ موضوع اپنی فطرت ونوعیت کے اعتبار سے عالمگیر یت کا حامل ہے لیکن اس کے تمام گوشوں کا احاطہ کرتے ہوئے بحث کرنامشکل ہونے کے ساتھ تقریباً ہر معاشرے میں ممنوع بھی ہے۔معلوم انسانی تاریخ میں چند چیزیں ایسی ہیں جن کی حیثیت مستقل رہی ہے۔ ان میں پیدائش اور موت، جنگیں اور انقلابات، دولت اور قحط، اوریقیناثواب وعذاب بھی۔ قدیم زمانے میں حیض کو خدا کی طرف سے عذاب سمجھا جاتا تھااوراس کا باعث تھیں باغ عدن میں شجر ممنوعہ کا پھل کھانے اور شیطانی فتنہ کا شکار ہونے والی ام الخواتین بی بی حوا۔
حیض دراصل لڑکیوں کے لیے بلوغت کے آغاز کی نشاندہی کرتا ہے، جو عام طور پر 11 سے 14 سال کی عمر کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے جس میں رحم کی پرت کابہنا شامل ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں ماہانہ خون آتا ہے۔ جسمانی طور پر، خون بہنے کے علاوہ، خواتین کو پیٹ میں شدید درد، اپھارہ، تھکاوٹ اور سر درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ جذباتی طور پر، خواتین کے مزاج میں چڑچڑے پن، بے چینی، حساسیت، اور اکثراوقات شدید ہارمونل تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہیں،بوجوہ خواتین ان دنوں شدید یا کچھ کم ڈپریشن سے بھی نبرد آزمارہتی ہیں۔ یہ ماہانہ سائیکل ہر عورت کی زندگی کی انقلابی تبدیلی ہے خاص طور پرایسے حبس زدہ معاشرے میں جہاں اس طرح کے موضوعات پر شاذ و نادر ہی بات کی جاتی ہے اس طرح کے مسائل کو سمجھنا اور ان سے نمٹنا بہت زیادہ مشکل ہو سکتا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ناکافی اور نامناسب علم اکثر ہماری نوجوان لڑکیوں کو الجھنوں اور غلط فہمیوں کا شکار کردیتا ہے۔ یوں و ہ ساری زندگی اپنے حقیقی مسائل کو بے جا شرم و حیاسے بنی ہوئی خاموشی کی چادر میں ڈھانپے کئی تکلیف دہ اورلاعلاج امراض کا شکار ہوجاتی ہیں۔ خیال رہے کہ صحت کی دیکھ بھال، صفائی ستھرائی اور سینیٹری مصنوعات تک رسائی اب بھی دنیا بھر کی تقریباً 500 ملین خواتین کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ حیران کن تعداد دنیا بھر میں اقتصادی حیثیت، ثقافتی رکاوٹوں اور علاقائی تفاوت کی وجہ سے ہے۔تیسری دنیا کے کسی بھی ملک کی طرح، پاکستانی خواتین کی اکثریت – خاص طور پر دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کو ماہواری کے دوران سب سے زیادہ تکلیف اور پریشانی ہوتی ہے۔
معاشی مجبوریوں کی وجہ سے، بہت سی نوجوان لڑکیاں اور عورتیں کپڑے کے چیتھڑوں یا دوسرے دیسی ساختہ پرانے کپڑے کااستعمال کرتی ہیں جو اکثر صحت کے سنگین مسائل کا باعث بن جاتے ہیں جن میں بیماریاں اور انفیکشن شامل ہیں اور خواتین کی تولیدی صحت کے لئے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ بہت سی نوجوان لڑکیاں اپنی ماہواری کے دوران اسکول کا ناغہ کرتی ہیں اورتعلیم سے محروم رہتی ہیں کیونکہ ان کی دسترس میں صفائی ستھرائی کابہتر انتظام نہیں ہوتا۔اور ماہواری کے شب وروز ان کے لئے بدنما داغ بن کرتعلیمی مواقعوں کو محدود کردیتے ہیں نیز ان کی ذہنی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔حیض کی طرح، مینوپازیا حیض بند ہونا بھی عورت کے لئے جسمانی اور جذباتی ٹیکس اداکرنے جیسا ہوتاہے۔کیونکہ مینوپاز عام طور پر 45 اور 55 سال کی عمر کے درمیان ہوتاہے۔حیض بند ہونے کے بعد جسم میں اکثر ایسٹروجن کی سطح میں نمایاں کمی آجاتی ہے۔اس کی عام علامات میں آنکھوں میں چمک، نیند میں خلل، رات کو پسینہ آنا، اوردیگر تبدیلیاں شامل ہیں۔ اگر مناسب طریقے سے علاج نہ کیا جائے اور خیال نہ رکھا جائے تو،مینوپاز دل کی بیماریوں اور آسٹیوپوروسس کے بڑھتے ہوئے خطرات کا باعث بھی بن سکتاہے۔
اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ مینوپاز کا تعلق اکثر جوانی کے خاتمے اور عورت کی زرخیزی یا بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس سے نسوانیت اورعورت پن کے احساس میں کمی واقع ہوتی ہے۔دوسری طرف ماہواری کے ایام ختم ہونے کے بعد خواتین اکثر جذباتی اضطراب، افسردگی اورانجانے نقصان کے احساس سے دوچار ہوتی ہیں۔
حیض اور ماہواری کے اختتام سے متعلق ممنوعات کی جڑیں قدیم زمانے میں تلاش کی جا سکتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ان میں سے کچھ واہمات وتوہمات آج بھی ہماری زندگیوں میں رخنہ اندازیوں کے لئے نہ صرف زندہ ہیں بلکہ بڑے بھرپور انداز سے اپنا کرداراداکررہے ہیں۔ہماری معصوم خواتین کودراصل خاموشی کے اس کلچر نے اس نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جو واقعتا زندگی کے حقیقی مراحل کے دوران مناسب معلومات اور مدد تک رسائی کے حصول کے لئے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
ماہواری اورمینوپاز سے منسلک چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے کھلی بات چیت اور جامع تعلیم تک رسائی ضروری ہے۔ صحت عامہ سے متعلق آگاہی کی مہمات اور پورے سائیکل کو سمجھنے اور ان کے اردگرد موجود خرافات کو دور کرنے کی کاوشیں ہمارے معاشرے کو ایک زندہ وتابندہ معاشرے میں تبدیل کرسکیں گی۔ خواتین کی جسمانی اور جذباتی صحت کو یقینی بنانے کے لئے حکومتی سطح پر بھی کردار اداہوناچاہیے۔اس سلسلے میں علاج معالجے کے ساتھ دیکھ بھال اورخاص طور پر سینیٹری مصنوعات پر سبسڈی دینے میں حکومت اپنا کردار اداکرسکتی ہے۔ہمیں خواتین کو مضبوط اور توانا کرنے کے لئے اپنے ارد گرد موجودجھوٹے رسم ورواج اور توہمات کو توڑنے کے لئے مضبوط سپورٹ سسٹم، تعلیم تک رسائی اور سہولیات کی دستیابی کے لئے اجتماعی کوششوں سے کام لینا ہوگا۔بلاشک ایک مضبوط اور صحت مند عورت ہی ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہے اور آنے والی نسلوں کی پرورش کر سکتی ہے۔