جنہیں لگ رہا ہے کہ ملک ریاض نے اصولوں پر مبنی مزاحمت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے وہ تیئس نومبر دوہزار تیئس کو بحریہ ٹاؤن کیس میں کئے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایک بار ضرور پڑھ لیں۔ یہ فیصلہ کرنے والا بینچ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تھا۔ اس فیصلے کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ اکیس مارچ دوہزارانیس کو سپریم کورٹ نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جو دراصل بحریہ ٹاؤن اور سپریم کورٹ کے اس وقت کے سماعت کرنے والے بینچ کے درمیان ایک کمپرومائز تھا۔ اس فیصلے کی رو سے بحریہ ٹاؤن کو ضلع ملیر کے علاقے میں 16896سولہ ہزار آٹھ سو چھیانوے ایکڑ اراضی دی جانی تھی اور اس کے عوض بحریہ ٹاؤن نے سات سال کے دوران قسطوں میں چار سو ساٹھ بلین روپے ادا کرنے تھے۔ یاد رہے کہ یہ کمپرومائز اس لئے ہوا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے ضلع ملیر اور نواحی علاقوں میں حکومتی زمینوں پر قبضہ کر رکھا تھا جس کے خلاف متعدد کیس اور درخواستیں عدالتوں میں التوا کا شکار تھیں۔ تخمینے کے مطابق بحریہ ٹاؤن کی قبضہ کی گئی زمینوں کی قیمت چار سو ساٹھ بلین روپے سے کہیں زیادہ تھی مگر بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی کے مصداق اور نادیدہ وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی رضا مندی سے اکیس مارچ دوہزار انیس کو یہ حکم نامہ جاری کر دیا۔ دسمبردوہزار انیس کو بحریہ ٹاؤن کے وکیل علی ظفر ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کر دی کہ بحریہ ٹاؤن کو ملنے والی سولہ ہزار آٹھ سو چھیانوے ایکڑ اراضی میں پانچ ہزار ایک سو انچاس ایکڑ کی کمی ہے سو بحریہ ٹاؤن نے طے شدہ رقم کی اقساط کی ادائیگی کو روک دیا۔ باہمی ملی بھگت کو ملاحظہ کرنا ہو تو نوٹ کریں کہ اس درخواست کو یکے بعد دیگرے چیف جسٹس گلزار احمد اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مسلسل التوا میں رکھا اور اس کی سماعت اٹھارہ اکتوبر دوہزار تیئس کو اس وقت ممکن ہو سکی جب چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے عہدہسنبھال لیا۔ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سابق اٹارنی جنرل سلمان بٹ ایڈووکیٹ بحریہ ٹاؤن کے وکیل کے طور پر سامنے آگئے۔سماعت کے دوران عدالت میں سب سے پہلے یہ سوال یہ اٹھایا گیا کہ کیا واقعی بحریہ ٹاؤن کو ملنے والی زمین کم ہے؟ شواہد و حقائق کی روشنی میں بحریہ ٹاؤن کی یہ بات بالکل جھوٹ اور لغو قرار پائی۔ سپریم کورٹ کے آٹھ نومبر دوہزار تیئس کو جاری کردہ حکم کے مطابق ایک دس رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں اعلی انتظامی و تکنیکی افسران شامل تھے۔ اس کمیٹی نے سروے آف پاکستان کے ذریعے بحریہ ٹاؤن کے قبضہ میں موجود زمینوں کا سائنٹفک سروے کیا۔ سروے رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے پاس کل 19931.63انیس ہزارنوسو اکتیس اعشاریہ تریسٹھ ایکڑ زمین موجود تھی جواکیس مارچ دوہزار انیس کے فیصلے میں متعین کردہ زمین سے 3035.63 تین ہزار پینتس اعشاریہ تریسٹھ ایکٹر زائد قرار پائی۔ اندازہ لگائیں کہ کم زمین دیئے جانے کو بنیاد بنا کر بحریہ ٹاؤن نے سپریم کورٹ میں چار سال تک ایک درخواست دائر کئے رکھی جسے اس وقت کے چیف جسٹس صاحبان نے سماعت کے لئے مقرر نہ کر کے بحریہ ٹاؤن کو اقساط کی ادائیگی روکنے کا بھر پور موقع دیا۔ در حقیقت بحریہ ٹاؤن نے ہزاروں ایکڑ زائداراضی پر اس دوران قبضہ کر لیا تھا۔بحریہ ٹاؤن کے جھوٹے دعوے کی قلعی جب سپریم کورٹ میں سروے آف پاکستان کی رپورٹ کی روشنی میں کھل گئی تو بحریہ ٹاؤن کے وکیل سلمان بٹ ایڈووکیٹ نے عدالت سے اس رپورٹ پر اعتراضات دائر کرنے کے لئے مزید مہلت طلب کی۔ اندازہ لگائیں کہ چار سال قبل دائر کی گئی درخواست میں بحریہ ٹاؤن نے زمین کم ہونے کا دعوی کیا اور چار سال کے بعد یہ جب ثابت ہو گیا کہ بحریہ ٹاؤن نے ہزاروں ایکڑ زائد اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے تو اس کے وکیل کو مزید وقت حاصل کرنے کی فکر پڑ گئی۔ عدالت نے بحریہ ٹاؤن کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا کہ متعلقہ شعبہ میں ملک کے سب سے مؤقر تکنیکی ادارے نے سائنٹفک انداز میں یہ سروے بحریہ ٹاؤن کے نمائندوں کی موجودگی میں کیا تھا۔ اس دوران بحریہ ٹاؤن کے ایک الاٹی نے عدالت کی توجہ اس جانب بھی مبذول کروائی کہ 2019 کے سپریم کورٹ کے ساتھ کمپرومائز کے نتیجے میں جو حکم نامہ جاری ہوا تھا اس سے قبل جمع کردہ ایک عدالتی دستاویز میں بحریہ ٹاؤن نے خود 16896سولہ ہزارآٹھ سو چھیانوے ایکڑ زمین پر قبضے اور اس کے ڈیویلپمنٹ پلان کو تسلیم کیا ہے۔ بعد ازاں بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کیونکر زمین کم ہونے کا مدعا اٹھا سکتی ہے! عدالت نے مزید وضاحت کی کہ بحریہ ٹاؤن انتظامیہ نے زمین کی قیمت تو اپنے الاٹیز سے وصول کرنا تھی اور کسی بھی جگہ بحریہ ٹاؤن نے یہ نہیں کہا کہ اس کے الاٹیز نے اپنی ادائیگیاں روک دی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنے الاٹیز سے رقوم لے کر بحریہ ٹاؤن انتظامیہ عدالت کے ساتھ باہمی رضامندی سے طے کردہ اقساط ادا کرنے سے انکاری ہو گئی۔زمین کے بارے میں بحریہ ٹاؤن کے مؤقف کو غلط ثابت کرنے کے بعد عدالت نے دوسرے اہم نکتے کی طرف توجہ مبذول کی کہ شیڈول کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے مختلف اقساط کی مد میں اب تک کتنی رقم جمع کروائی ہے؟ 2019 کے عدالتی فیصلے کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے 460 بلین روپے کی کل رقم 2.5 بلین روپے کی اڑتالیس ماہانہ اقساط میں ادا کرنا تھی اور اس ماہانہ قسط کا آغاز یکم ستمبر 2019 سے ہونا تھا۔ بقایار قم چھتیں برابر ماہانہ اقساط کی صورت میں 4 فیصد سالانہ مارک اپ کے ساتھ ادا کر نا قرار پایا تھا جس کا آغاز یکم ستمبر 2023 سے ہونا تھا۔ یہ تمام اقساط بحریہ ٹاؤن انتظامیہ نے نیشنل بینک میں رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام پر قائم بینک اکاؤنٹ میں جمع کروانی تھیں۔عدالت نے جب ریکارڈ چیک کیا تو پتا چلا کہ بحریہ ٹاؤن نے دو اعشاریہ پانچ بلین روپے کی ادائیگی آخری بار اکتیس اکتوبر دوہزار انیس کو کی تھی (یاد رہے کہ عدالت یہ ریکارڈ دوہزار تیئس کے آخر میں چیک کر رہی تھی) اور اس رقم کے بعد کچھ چھوٹی رقوم کی ادائیگی مختلف اوقات میں ہوئیں جو کل ملاکر 173849522 سترہ کروڑ چوراسی لاکھ نو ہزار پانچ سو بائیس روپے تھے جو طے شدہ 2.5 بلین روپے کی ماہانہ قسط سے بھی کم بنتے تھے۔ اس کے بعد بحریہ ٹاؤن نے عدالتی حکم نامے کی مسلسل خلاف ورزی کی اور کوئی قسط ادا نہیں کی۔ اس سارے عرصے کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کا بھر پور تعاون بحریہ ٹاؤن کو حاصل رہا۔ سپریم کورٹ نے تخمینہ لگایا کہ طے شدہ شیڈول کے مطابق نومبر دوہزار تیئس تک بحریہ ٹاؤن کو ایک سو چھیاسٹھ اعشاریہ پچیس بلین روپے ادا کرنے تھے(مارک اپ کے علاوہ) مگر اس نے صرف 24 بلین روپے سے کچھ زائد رقم ادا کی۔ عدالتی علم میں یہ واضح نہیں ہے کہ کل ادا شدہ رقم 24 بلین تک کیسے پہنچی کیونکہ جن رقوم کی ادائیگی کا فیصلے میں ذکر ملتا ہے وہ کم بنتی ہیں۔ عدالت نے اس صورتحال کو بحریہ ٹاؤن کا ڈیفالٹ ڈیکلئیر کرتے ہوئے یکمشت پوری رقم کو 2019 کے حکم نامے کے مطابق قابل ادائیگی قرار دیا۔نیشنل بینک میں جو اکاؤنٹ رجسٹرار سپریم کے نام پر تھا اور اس میں بحریہ ٹاؤن نے اقساط جمع کروانی تھیں اس اکاؤنٹ کے حسابات کی تفصیل سے وہ بات بھی سامنے آگئی جس کا تذکرہ ملکی سیاست میں کافی عرصے سے جاری ہے۔ یہ وہی ایشو ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے ملک ریاض اب اپنی انگلی کو لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ بینک کی طرف سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی تفصیلات کے مطابق دس غیر ملکی اکاؤنٹس سے بھی رقوم رجسٹرار سپریم کورٹ کے مذکورہ اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی تھیں۔ 136 ملین برطانوی پاؤنڈز اور 44 ملین امریکی ڈالر ز جو اس وقت کے حساب سے تقریبا 35 بلین پاکستانی روپے بنتے تھے، کی ادائیگی غیر ملکی اکاؤنٹس سے کی گئی۔ گویا کہ بحریہ ٹاؤن نے 460 بلین روپے کی جو رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروانی تھی اس میں سے 35 بلین روپے بیرون ملک مختلف اکاؤنٹس سے وصول ہوئے۔ ریکارڈ کے مطابق ملک ریاض کی فیملی کے مختلف ممبر ان کے اکاؤنٹس ہی سے یہ رقوم منتقل کی گئیں تھیں۔ سپریم کورٹ نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ سپریم کورٹ کی اجازت کے بغیر غیر ملکی اکاؤنٹس سے رقوم کی منتقلی ایک نامناسب بات تھی۔ عدالت نے قرار دیا کہ یہ وہ پیسہ ہے جو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے 2002 Proceeds of Crime Act کے تحت حاصل کیے گئے Account Freezing Order کی بنیاد پر منجمد کیا تھا اور جسے ریاض فیملی نے ایک معاہدےکے تحت برطانیہ سے نکال کر واپس پاکستان لانا تھا۔عدالت نے قرار دیا کہ بد قسمتی سے اس معاملے میں سپریم کورٹ کو غیر ضروری طور پر شامل کیا گیا۔ یہ پیسہ جو غلط طریقے سے ملک ریاض فیملی پاکستان سے نکال کر لے گئی تھی اسے ”جرم کی پونچی ”قرار دیتے ہوئے برطانوی کرائم ایجنسی نے ایک معاہدے کے تحت واپس پاکستان لے جانے کو کہا۔ ظاہر ہے کہ اس جرم کا ایک بڑا حصہ یعنی جس طریقے سے یہ رقم پاکستان میں جمع کی گئی، اس پر ٹیکس وغیرہ کی عدم ادائیگی اور اس کی مشکوک و غیر قانونی طریقے سے پاکستان سے باہر منتقلی و غیرہ، یہ سب کچھ تو پاکستان میں ہوا تھا۔ برطانیہ نے اس ناجائزپیسے ” کو اپنے سسٹم کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ اس کو واپس پاکستان لے جائیں۔ اس سارے معاملے میں اس وقت کے حکومتی مشیر بیرسٹر شہز ادا کبر بھی شامل تھے کیونکہ وہ حکومت پاکستان کے قائم کردہ ایسٹ ریکوری یونٹ کی طرف سے برطانوی حکومت کے ساتھ اس سارے معاملے کو ڈیل کر رہے تھے۔ جب یہ طے ہو گیا کہ یہ پیسہ اب پاکستان واپس آئے گا تو اس وقت کی حکومت نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف اس رقم کو بیرون ملک لے جانے وغیرہ کے بارے میں تحقیقات کرنے کے بجائے ان کے معاون و شریک کا کردار ادا کر نا شروع کردیا۔ یہ بات اب ریکار ڈ پر آچکی ہے کہ شہز ادا کبر نے اس وقت کی کابینہ کے سامنے ایک بند لفافے کو معاہدہ قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ سے منظوری حاصل کی کہ یہ رقم سپریم کورٹ میں جمع کروادی جائے۔ گویا کہ اس پیسے کو حکومت پاکستان کا پیسہ سمجھنے کے بجائے ملک ریاض فیملی کا حق مان لیا گیا اور انہیں اسے سپریم کورٹ میں قابل ادار قم میں ایڈ جسٹ کرنے کی اجازت دی گئی۔سپریم کورٹ نے اس بارے میں جو لکھا ہے وہ پڑھنے کے لائق ہے۔ عدالت نے لکھا کہ:
Apparently, these monies were used to offset Bahria Town’s stated liability, bringing to mind the idiom -robbing Peter to pay Paul
یعنی جو بحریہ ٹاؤن کی ریاست کی طرف 460 بلین روپے ادا کرنے کی ذمہ داری تھی اس کو پورا کرنے کے لئے اس رقم کو استعمال کیا گیا حالانکہ یہ رقم حکومت پاکستان کا حق تھی۔ گویا کہ انگریزی محاورے کے مصداق پیٹر کو لوٹ کر پال کو ادائیگی کی گئی!سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں برطانیہ سے وصول ہونے والی رقم وفاقی حکومت کو منتقل کرنے اور اکاؤنٹ میں موجود باقی رقم حکومت سندھ کے حوالے کرنے کا حکم دے کر اس اکاؤنٹ کو بند کر دیا۔ اس کے بعد یہ طے پاچکا ہے کہ بحریہ ٹاؤن انتظامیہ نے 2019 میں جو کمٹمنٹ سپریم کورٹ میں کی تھی اسے پورا کرنے میں یہ ناکام ہو گئی۔اب آئیں اس سارے قضیے میں بعض اداروں اور افراد کے کردار کی طرف کہ انہوں نے بہتی گنگا میں کسطرح ہاتھ دھوئے۔ مگر اس سے پہلے ملک ریاض کے کلمہ حق کے بارے میں فیصلہ کر لیں کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ وہ 460 بلین روپے ادا کرنے میں ڈیفالٹ کر چکا ہے اور سپریم کورٹ بھی یہ بات حتمی طور پر طے کر چکی ہے تو ملک صاحب کو یاد آگیا کہ ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ مجھے اس بات میں بالکل بھی شبہ نہیں ہے کہ ملک صاحب پر نادیدہ قوتوں کا باؤ ہو گا کہ وہ سابق وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے بعض افراد کے خلاف بیان دیں مگر اس دباؤ کی بنیاد ایک جرم ہے۔ ایک واضح، کھلا اور بہت بڑا جرم! ملک صاحب جب آپ ہزاروں ایکڑ زمین ملی بھگت کے ساتھ ہڑپ کر جاتے ہیں اور عدالتوں میں کئے گئے معاہدوں کو روندتے ہیں تو پھر دو ہی صورتیں باقی بچتی ہیں۔ اول تو یہ کہ آپ کو قانون کا سامنا کر نا پڑے جو ہمارے ہاں بوجوہ ممکن نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ آپ کو اپنے سے بڑے کسی طاقتور کی آشیر باد حاصل ہو جائے۔ آپ اگر اس آشیر باد کے خواہاں ہیں تو پھر ان کی بات بھی مانیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ساری زندگی ان کی چاکری و نوکری کر کے کام نکالے اور اب چلے ہیں کلمہ حق بلند کرنے! ہاں البتہ ایک تیسرا اور اصولی راستہ بھی ہے کہ آپ کھل کر اپنے جرائم کا اعتراف کریں اور ممکنہ حد تک ان کی تلافی کر کے اعلان کر دیں کہ بہت ہو گیا اب میں ہاتھ کھڑے کرتا ہوں۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس راستے پر چلنے کی نہ تو آپ میں سکت ہے اور نہ ہی ارادہ! آپ آجائیں سابق وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے مخصوص افراد کے کردار کی طرف پی ٹی آئی کے انتہائی غالی یا انتہائی غیبی حامیوں کو چھوڑ عمران خان کے معقول حامیوں کو بھی اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ برطانیہ سے وصول ہونے والی رقم کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے خان صاحب سے غلطی ہوئی تھی۔ کیا یہ غلطی دانستہ ہے اور اس کا سرا القادر ٹرسٹ کو ملک ریاض کی طرف سے دیئے گئے عطیات سے ملتاہے یا نہیں؟ اس بارے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جو فائدہ ملک ریاض کو دیا گیا اس کے مقابلے میں القادر ٹرسٹ والا معاملہ بہت معمولی اور چھوٹا ہے۔ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ خان صاحب کے مصاحبین خاص میں سے کچھ لوگوں نے اس وقت کے طاقتور حلقوں کے ساتھ مل کر ملک ریاض کے ساتھ اس معاملے میں پس پردہ اصل ڈیل کٹ کی ہو جس کا نتیجہ کابینہ کے ملفوف فیصلے کی صورت میں برآمد ہوا۔ اگر آپ خان صاحب کو بہت زیادہ مارجن دینا چاہتے ہیں تو اس تھیوری کو اختیار کر کے انہیں کرپٹ قرار دینے کے بجائے نالائق۔ کم از کم اس معاملے میں قرار دے لیں۔ یہ چوائس ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔ البتہ یہ بات اہم ہے کہ ملک صاحب سچ بولنے پر آمادہ ہو جائیں تو یہ بتادیں کہ انہوں نے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے مختلف کرداروں کو کتنا حصہ دیا۔آخر میں کچھ باتیں اس پورے کیس میں عدلیہ کے کردار کے بارے میں بھی دل تھام کر سن لیں۔ اکیس مارچ دوہزار انیس کا آرڈر سپریم کورٹ کے جس بنچ نے دیا وہ جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تھا۔ اس بینچ نے بحریہ ٹاؤن کی طرف سے چار سوساٹھ بلین روپے کی آفر کو قبول کرتے ہوئے ان شرائط کی حتمی منظوری دی تھی جنہیں عدالت کے آرڈر میں نقل بھی کیا گیا۔ ان شرائط میں واضح کیا گیا کہ ڈاؤن پے منٹ یاد و اقساط کی یکے بعد دیگرے ڈاؤن پے منٹ یاد و اقساط کی یکے بعد دیگرے عدم ادائیگی یا پھر کل تین اقساط کی عدم ادائیگی کو بحریہ ٹاؤن کی طرف سے ڈیفالٹ تصور کیا جائے گا۔ بحریہ ٹاؤن کو بر وقت رقم ادا کرنے پر پابند بنانے کے لئے سکیورٹی کا ذکر بھی آرڈر میں ہے جس میں بحریہ ٹاؤن کی بہت سی جائدادوں بشمول تھیم پارک، فاطمہ جناح یونیورسٹی، رفیع کرکٹ اسٹیڈیم اسکولز، ہیڈ آفس پر محیط ایک لمبی فہرست جمع کروائی گئی۔ ان شرائط کی تکمیل کے لئے ملک ریاض احمد،علی ریاض، بینا ریاض اور زین ملک کو ذاتی گارنٹی جمع کروانے کا پابند بھی کیا گیا۔ اس آرڈر کے آخر میں نیب کو اس معاملے میں بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کے خلاف کاروائی سے اس وقت تک روک دیا گیا جب تک بحریہ ٹاؤن مذکورہ شرائط کے مطابق ادا ئیگیاں کرتا رہے گا۔ بحریہ ٹاؤن کے ڈیفالٹ کرنے کی صورت میں نیب کو فوری طور پر ریفرنس دائر کرنے کی اجازت ہوگی۔اب آئیں ایک حیران کن بات کی طرف کہ اس معاملے میں بعض متفرق درخواستوں کی سماعت انتیس جون دوہزار بیس کو جسٹس فیصل عرب، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بینچ نے کی۔ ان درخواستوں کے ذریعے جو سوال اس بینچ کے سامنے آیا وہ یہ تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے اس وقت تک جو اقساط جمع کروائیں تھیں اس جمع شدہ رقم کو کیسے استعمال میں لایا جائے؟ عدالت نے اس سماعت کا آرڈر بیس اکتوبر دوہزار بیس کو جاری کیا۔ اس آرڈر کے پیرا گراف نمبر دو کے مطابق سماعت کی تاریخ یعنی انتیس جون دوہزار بیس تک بحریہ ٹاؤن نے 52694270554 باون ارب انہتر کروڑ بیالیس لاکھ سترہزار پانچ سو چوون روپے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروائے تھے۔ یہاں رک کر ذرا غور کریں کہ تیئس نومبر دوہزار تیئس کے سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے میں یہ بات صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے آخری ماہانہ قسط اکتیس اکتوبر دوہزار انیس کو جمع کروائی اور اس کے بعد چند چھوٹی رقوم جمع ہوئیں جو ایک مکمل قسط سے بھی کم تھیں۔ یعنی نومبر دوہزار انیس سے لے کر جون دوہزار بیس تک بحریہ ٹاؤن کم از کم آٹھ مکمل اقساط کی ادائیگی میں ڈیفالٹ کر چکا تھا جس کا سرے سے کوئی ذکر بیس اکتوبردوہزار بیس کے جسٹس فیصل عرب، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کے آرڈر میں ملتا ہی نہیں۔ یاد رہے کہ بحریہ ٹاؤن انتظامیہ چودہ دسمبر دوہزار انیس کو سپریم کورٹ میں زمین کم ہونے کے بارے میں درخواست ڈال چکی تھی اور اس کے ساتھ ہی اقساط کی ادائیگی بھی یکطرفہ طور پر روک دی گئی تھی مگر اس بنچ نے حیران کن طور پر ڈیفالٹ اور التوا میں پڑی درخواست جو اس سارے معاملے میں بنیادی ایشو تھا کا ذکر تک نہیں کیا۔اس کے برعکس ان تین جج صاحبان نے اس آرڈر میں تفصیل کے ساتھ (آرڈر کے ساتھ ایک ضمیمہ بھی منسلک کیا گیا) لکھا کہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع ہونے والی اس خطیر رقم کو خرچ کرنے کے لئے ایک ہائی پروفائل (بلیور بن کی اصطلاح استعمال کی گئی کمیشن تشکیل دیا جائے جس کی سر براہی سپریم کورٹ کے ایسے ریٹائرڈ جج کے پاس ہو گی جو مستقل طور پر سندھ کے رہائشی ہوں۔ اس کمیشن کے دیگر ووٹنگ اور نان ووٹنگ ممبر بھی مقرر طے کئے گئے۔ یہ کمیشن سالہا سال تک اس سارے معاملے کو دیکھے گا اور اس رقم کو خرچ کرنے کی اجازت پراجیکٹس کی صورت میں دیتا رہے گا۔ اب ذرا دل تھام کر سنیں کہ آرڈر میں یہ بھی کیا گیا کہ کمیشن اپنی پہلی میٹنگ پچیس جنوری دوہزار اکیس یا اس سے قبل منعقد کرے گا۔ یعنی یہ آرڈربیس اکتوبردوہزار بیس کو جاری کیا گیا۔ اس کی رو سے سپریم کورٹ کے ایک سندھ کی رہائشی ریٹائرڈ جج جسے سپریم کورٹ ہی نے مقرر کرنا تھا کو کمیشن کا سر براہ بنایا گیا اور پھرچار نومبردوہزار بیس کو جسٹس فیصل عرب ریٹائر ہو گئے جو اتفاق سے سندھ کے مستقل رہائشی بھی تھے! باقی کی کہانی اور لنک آپ خود جوڑ سکتے ہیں! بحریہ ٹاؤن کیس کو سپریم کورٹ کے ان معزز جج صاحبان نے جس انداز میں چلا یا اور جس طرف یہ اسے لے کر جانا چاہتے تھے اس بارے میں اگر کبھی آزادانہ تحقیقات ہوئیں تو بہت کچھ کھل کر سامنے آئے گا۔ بحریہ ٹاؤن کے واضح اور کھلے ڈیفالٹ کے باوجود اس کی درخواستوں کو سالوں تک التوا میں رکھنا اور اس دوران ریٹائر ڈ حج صاحبان کے لئے کمیشن کی سر براہی کو عدالت کی پٹاری سے سانپ کی طرح نکال کر لے آنا ہماری عدالتی تاریخ کے افسوسناک ترین مراحل میں سے ایک ہے۔ بد قسمتی سے اس بارے میں نہ تو ہمارے ہاں زیادہ جانکاری ہے اور نہ ہی کھل کر بات جاتی ہے۔ مفادات کے اس ننگے کھیل میں کس نے کیا کمایا اور کسے بلیک میل کیا، بحریہ ٹاؤن کیس کی کل کہانی بس اتنی سی ہی ہے!آخر میں چند باتیں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس امین الدین اور جسٹس اطہر من اللہ بینچ کے آرڈر کے بارے میں بیان کرنی ضروری ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بنچ نے پہلے سے جاری جمود کو توڑ کر مفادات کے کھیل پر ایک کاری ضرب لگائی اور ریٹائر ڈ حج صاحبان کے بیچ میں بیٹھ کر بعد از ریٹائر منٹ نوکری تراشنے کے فن پر بھی لات مار دی مگر ہمارے خیال میں اس آرڈر میں مزیدصراحت کے ساتھ 21 مارچ 2019 کے فیصلے کے مضمرات پر بات کرنے کی ضرورت تھی۔ بحریہ ٹاؤن کے ڈیفالٹ، طویل عرصے تک درخواستوں کے التوا کے ذریعے بحریہ ٹاؤن کی معاونت، غیر ملکی رقم کی سپریم کورٹ اکاؤنٹ میں ترسیل کے کرداروں کا تعین اور معاہدے کی رو سےسکیورٹی وذاتی گارنٹی وغیرہ کے بارے میں عدالت ایک قدم آگے بڑھا کر زیادہ صراحت سے اقدامات اٹھانے کا فیصلہ صادر کر سکتی تھی۔
ڈاکٹر عزیز الرحمن، ڈائریکٹر سکول آف لاء، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد