یہ تھیں ملک ریاض کی خدمات

70 سال کی بوڑھی خاتون اُڑتے ہوئے گردوغبار میں بھاگتی ہوئی آئی اور اپنے ہاتھ کھول کر دیوہیکل بلڈوزر کے سامنے کھڑی ہوگئی، یہ غریب دیہاتی خاتون ملک ریاض اور اس کے طاقتور لیکن سرکش ساتھیوں کے اس خیرہ کن اور چمچماتی کھربوں مالیت کے منصوبے کے سامنے محض راستے کا ایک چھوٹا سا پتھر ہی تو تھی، سو بلڈوزر بوڑھی خاتون کو بھی ’ہموار‘ کرنے کے لیے آگے بڑھا۔ ایک چیخ بلند ہونے کو تھی کہ گاؤں کا ایک نوجوان بھاگتا ہوا آیا اور بوڑھی عورت کو اُٹھا کر ہموار ہونے سے بچا لیا۔

یہ کراچی کے نواح میں نور محمد گوٹھ اور عبداللہ گبول روڈ کا علاقہ تھا، جہاں کے سادہ اطوار دیہاتی سینکڑوں برسوں سے ایک پرسکون زندگی گزارتے اور اپنی زمینوں پر سبزیاں کاشت کرتے اور آم اور کجھور کے درخت اُگاتے، جسے  کراچی کی مارکیٹ میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔  جس سے ان غریب دیہاتیوں کے رزق حلال کا بندوبست ہوتا تو وہ ایک سکون کے ساتھ سندھ کی لوک موسیقی اور شاہ لطیف کی شاعری کا لطف اُٹھاتے۔

تب ان بدنصیب لوگوں کو کیا معلوم تھا کہ ایک حریص غارت گر اپنے لاؤ لشکر سمیت ان پرسکون کھلیانوں اور پگ ڈنڈیوں کا رُخ کرے گا اور ہماری جھونپڑیاں ہوا میں اُچھال دے گا۔

جب نور محمد گوٹھ کے زمیندار مراد گبول سے فون پر بات ہوئی تھی تو میرا کلیجہ منہ کو آ گیاتھا۔ مراد گبول فیض گبول کا بیٹا ہے، جو اس گوٹھ میں 50 ایکڑ اراضی کا مالک تھا۔

ایک دن فیض گبول اپنے کھیتوں میں چارپائی پر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک پولیس اور انتظامیہ کی درجن بھر گاڑیوں کے درمیان ایک بہت بڑی گاڑی نمودار ہوئی جو ایک پگڈنڈی کے پاس آکر رُکی اور اس سے عینک پہنے ایک شخص مکمل پروٹوکول کے ساتھ نیچے اُترا اور تاحد نگاہ پھیلے سرسبز کھیتوں پر نگاہ ڈالنے کے بعد فیض گبول کو آفر دی کہ آپ یہ ساری زمین مجھے بیچ دیں اور یہ 15 کروڑ روپے کا چیک لے لیں۔

فیض گبول جیسا دیہاتی آدمی یہ سن کر سکتے میں آگیا، لیکن میزبان ہونے کے ناتے اپنے غصے اور جذبات پر قابو پاتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ جناب ہم دیہاتی لوگ زمین کو اپنی ماں سمجھتے ہیں اور ہمارے ہاں مائیں بیچی نہیں جاتیں، بلکہ ان کا احترام اور تحفظ کیا جاتا ہے۔

ایک خاموشی سی چھا گئی اور تھوڑی دیر بعد گاڑیاں اپنے پیچھے گرد چھوڑتی ہوئی گم ہو گئیں۔اور پھر ان زمینوں پر نہ ہی کجھور کے بلند و بالا درخت باقی رہے نہ ہی آم کی مٹھاس، نہ کھیت کھلیان بچے،  نہ ہی کوئی ہریالی۔ اگر کوئی چیز باقی رہی تو وہ ملک ریاض اور اس کے گماشتوں کی دولت اور اقتدار کی مشترکہ طاقت تھی۔

یہ کئی سال پہلے کی بات ہے، اب اب گمنامی میں لپٹا ہوا افتخار چودھری تب شہرت اور مقبولیت کے زعم میں مبتلا تھا، اس نے اپنے بیٹے ارسلان افتخار کے یورپ کے کلبوں کی کہانیاں اور  34 کروڑ روپے کے معاملات سامنے آنے سے پہلے ملک ریاض پر ہاتھ ڈالا اور پاکستان کا یہ طاقتور ترین آدمی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہوا، لیکن اس کے فورًا بعد ارسلان افتخار کے کرتوت سامنے آئے اور یوں یہ کیس مٹی پاؤ کی نذر ہو گیا۔

تاہم کہیں نہ کہیں ملک ریاض کا معاملہ عدالتی ایوانوں میں جھولتا رہا، جس سے بعد میں 4.5 سو ارب کا ایک ڈراما برآمد ہوا، البتہ سپریم کورٹ نے کراچی میں بحریہ ٹاؤن کو 16 سو ایکڑ زمین کی اجازت دے دی، چونکہ سندھ کے پسماندہ دیہاتوں میں ابھی بھٹو زندہ ہے، جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے ہاتھوں سے نہ ہی سندھ حکومت نکل رہی ہے، نہ ہی اس خاندان کے مالی مفادات، سو ان دونوں اجزا کی آمیزش ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے 16 سو ایکڑ زمین کی اجازت ملنے کے باوجود بھی 4 ہزار ایکڑ سے زائد زمین ’فتح‘ کرلی گئی اور پولیس اور انتظامیہ کے ذریعے مزید فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔

پھر غریب سندھی دیہاتیوں کے گھر گرائے گئے، درخت اُکھاڑے گئے اور جھونپڑیاں اُڑائی گئیں۔سو ایسا ہونا بھی تھا کیونکہ ان غریب دیہاتیوں کی اتنی جرأت کہاں تھی کہ طاقت اور بے بسی کی حقیقت کو بھی بھول جاتے اور اپنے حق کی آواز بھی اُٹھاتے۔

یہی وہ ملک ریاض تھا اور یہی اس کی وہ زمانہ سازی تھی کہ قوم کے 190 ملین اپنی جیب میں اتارنے سے پہلے اس خاتون کو بھی بوتل میں اتار لیا تھا، جس کے ہاتھوں میں اس طوطے کی جان تھی جس نے اس بد نصیب ملک کی جان نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔