پاکستان کرکٹ ٹیم کی اب تک ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ دوہزار چوبیس میں کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے۔الزامات، سیاست،امیدوخوشی، بیم ورجا کی عجب کیفیت ہے جو پوری قوم کے ذہن ودل پر طاری ہے۔توقعات کاٹوٹنا انسانی زندگی کامعمول ہے لیکن جب پوری قوم ایک ہی نصب العین رکھتی ہو۔اور شاہ سے لے کر شاہ صاحب تک یہ سوچ رہے ہوں کہ کرکٹ ورلڈ کپ ہماری اناکا نہیں نزع کا معاملہ ہے۔ہماری سانسیں بحال ہونے سے رہ جائیں گی اگر ہماری ٹیم خصوصیت کے ساتھ بھارت سے ہار جائے تو۔اور پھر حقیقت میں ہی ایسا ہو بھی جائے توپھر کیا کیا جائے؟حالیہ نتائج یہ ہیں کہ بابر اعظم کی قیادت والی ٹیم بھارت کے خلاف چھ رنز سے ہار گئی۔یہ بھی کہنا مشکل ہے کہ مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا۔ یہ پاکستان کی دو میچوں میں دوسری شکست تھی جب وہ پہلے گروپ میچ میں امریکہ کے ہاتھوں شکست کا زخم کھائے بیٹھا تھا۔اگرچہ نسیم شاہ اور حارث رؤف نے تین تین وکٹیں لے کر بھارت کو ایک سو انیس رنز پر آؤٹ کر دیا لیکن بھارت کے باؤلرز نے بے مثال نظم و ضبط کا مظاہرہ کرکے پاکستان کو عبرتناک شکست سے دوچار کردیا۔ بھارت کے خلاف یہ بدترین ہار پاکستان کے مقابلے کے سپر ایٹ مرحلے میں پہنچنے کے امکانات کے لئے بھی بڑا دھچکاثابت ہوئی ہے۔
پاکستان کے دو میچوں کے بعد صفر پوائنٹس ہیں اور اس وقت اس کے کوالیفائی کرنے کے امکانات بہت کم نظر آ رہے ہیں۔ بابر اعظم کی قیادت میں ٹیم کو اپنے باقی دو میچز کینیڈا اور آئرلینڈ کے خلاف جیتنے ہوں گے جبکہ امید ہے کہ امریکہ اور کینیڈا مزید کوئی میچ نہیں جیتیں گے۔
یہاں تک کہ اگر پاکستان اپنے دونوں میچ جیت جاتا ہے اور امریکہ اپنے باقی دو میچ ہار جاتا ہے، تب بھی سپرایٹ مرحلے کے لیے کوالیفائی نیٹ رن ریٹ پر آ جائے گا۔ دونوں ٹیموں کے 4 میچوں میں 4 پوائنٹس ہوں گے اور پاکستان کواپنی راہ پانے کے لئے کئی نتائج درکار ہوں گے۔آئیے ان اسباب پر غور کرتے ہیں جن کو شاید ابھی تک مکمل طور سے ہماری کرکٹ ٹیم کی تیاری میں فوکس نہیں کیا گیا
اور کارکردگی کے پیمانوں میں کوئی خاص حیثیت ونسبت نہیں دی گئی۔ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستانی قوم اپنے اندر ہرشعبہ ء حیات میں بے شمار جوہرِقابل رکھتی ہے جو ہر اعتبار سے دنیا کی کسی بھی ترقی یافتہ قوم کے ہم پلہ ہیں۔نہ تو صلاحیتوں کی کمی ہے نہ قابلیت کی اور نہ کوئی ایسی معذوری ہے جو ہمیں دوسری قوموں کے آگے انڈر ویلیوڈکرسکتی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہماری کچھ اجتماعی کمزوریاں ہیں جن کی پہچان اور سدباب ہمیں ہر سطح پر کرنانہایت ضروری ہے۔چونکہ بنا تشخیص علاج ممکن ہی نہیں ہے۔یہ بات یہاں قابل ِ ذکر ہے کہ ملک میں کھیلے جانے والے کھیلوں میں جو بھی کھلاڑی قومی اور اس کے بعد عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل کرتے ہیں ان کا عمومی تعلق مڈل کلاس یا نیم تعلیم یافتہ گھرانوں سے ہوتاہے۔اور ایسی ہی اپروچ ہمیں قومی کرکٹ ٹیم میں کھیلنے والے پلیئرزمیں بھی دکھائی دیتی ہے۔بہت مدت گزری اشفاق احمد صاحب جو حقیقتاً ہماری قوم کے نباضوں میں شمار ہوتے تھے کہاکرتے تھے کہ پاکستانی ہر شعبے میں عالمی سطح پر ٹاپ موسٹ پوزیشنز پر نظر آئیں گے اگر وہ صرف محجوب ہونا چھوڑ دیں۔دراصل بحیثیت قوم ہمارے اندرجو ایک خاص طرح کا کمپلیکس موجو دہے وہی کمپلیکس کھیلوں کی دنیا میں بھی اپنی تاثیردکھاتاہے اوراس باعث سے ہمارے جوہر ِ قابل بہتر سے بہترین کارکردگی کامظاہرہ کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔یہ نکتہ اظہر من الشمس ہے کہ کرکٹ ٹیم کے پلیئرز کی صلاحیتوں کا اظہار کرکٹ گراؤنڈ میں ہوتاہے جب وہ پیکار ِ پیہم میں مصروف ہوتے ہیں۔ گراؤنڈ سے باہر رہ کر حکمت عملی بنانا اور اس کی مختلف تعبیر یں دینا نہایت آسان ہے جسے ڈرائنگ روم کا شیر بننا بھی کہہ سکتے ہیں۔لیکن کرکٹر کی حقیقی ذہانت، اعتماد اور صلاحیت وقابلیت کے اظہار کی جگہ صرف اور صرف گراؤنڈ ہے جہاں وہ اپنی ذہانت،مہارت اور حکمت ِ عملی کو ظاہر کرسکتاہے اور اپنے اعتماد اور صلاحیتوں کو دنیا سے منواسکتاہے۔درحقیقت ہمارے کرکٹرز حقیقی اعتماد کی اس دولت سے محروم ہیں جو دوسری آزاد قوموں کے کھلاڑیوں کو حاصل ہے۔المختصر اگر ہمارے کسی پلیئر کا بھارت کے کسی پلیئر کے آئی کیولیول سے موازنہ کیا جائے توفرق ظاہر ہوجائے گا۔ہمیں اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے کھلاڑیوں کی تربیت کے لئے شعور وفکر کی راہیں ہموار کرنا ضروری ہیں۔ ان کی زندگیوں میں ذہانت سے بھرپور طریقہ ہائے علم وفکر کو رائج کرنابھی ضروری ہے۔ ایسے نظم و ضبط جس میں ان کی آزادی کو کھل کھیلنے کے مواقع دستیاب ہوں ان کی کارکردگی میں نمایاں اضافہ کریں گے۔انھیں پرجوش اور دباؤ سے باہر رکھنے کے لئے خصوصی دماغی ورزشیں معمول کا حصہ ہونی چاہییں۔اس حوالے سے انھیں شطرنج کی طرف آمادہ کرنا بھی حکمت ِ عملی کی تیاری میں مہارت کے حصول کا ایک بہترین ذریعہ ہوسکتاہے۔یہ بات تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے کہ شطرنج صرف ایک کھیل نہیں ہے۔ بہت سے ماہرین کی نگاہ میں شطرنج انسانی دماغ کے لیے ایک ہنر مند ورزش ہے۔ اس کے علاوہ یہ کھیل زندگی کا ایک بہترین نمونہ بھی ہے۔ اس کھیل کا بنیادی عنصر شطرنج کے مہروں پر اپنی طاقت استعمال کرنے کے مواقعوں کی دستیابی ہے۔ آج کے دور میں کرکٹ کا کھیل صرف کھیل نہیں ہے یہ دو قوموں کے لئے جنگ کا میدان ثابت ہوتاہے اور فتح وشکست کا مطلب سخت ترین جذبات کی صورت میں سامنے آتاہے۔کھلاڑیوں کے لئے چنیدہ موٹیویشنل اسپیکرز کا اہتمام بھی ان کی کارکردگی میں اضافے کا باعث بن سکے گا۔کیونکہ یہ کھیل ایک جدوجہد کی جنگ بن چکا ہے جس میں ایک خاص طرح کی سحر انگیزی شامل ہونے کے ساتھ علم اور جنرل نالج بھی شامل ہے۔دوسری جانب ہمارے سماج میں کامیابی کو مسلسل موازنے کی زد پرپرکھاجاتاہے اس وجہ سے احساس کمتری نہایت خاموشی اور سرعت کے ساتھ ہماری نفسیات میں داخل ہوجاتاہے اور ذاتی ترقی اور فلاح و بہبود میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ حالیہ شکست سے کھلاڑیوں اور خصوصیت کے ساتھ ٹیم کے کپتان کی شخصیت جس طرح سے مسخ ہورہی ہے اس کا ہمیں قطعاً اندازہ نہیں ہے۔ایک ماہر نفسیات کی رو سے ان پلیئرز کے لئے آئندہ اچھی پرفارمنس دینا کسی قدر مشکل ہوسکتاہے اس کو بیان کرنا ناممکن ہے۔