کسی نے کہا ہے “ہم وہ نہیں جنھیں کہ زمانہ بنا گیا……ہم خود تراشتے ہیں منازل کے سنگ ِ راہ،یہ کلام سنگاپورپرصادق آتا ہے۔ ایک ایسا ملک جس نے اپنی ترقی کے سفر میں بیش ہا بیش سنگ ِ میل طے کئے ہیں،۔ محدود قدرتی وسائل اور تیسری دنیا کا ملک ہونے کے باوجود ایک ترقی پذیر معیشت کس طرح دنیا کے سر برآوردہ ترقی یافتہ ممالک کے برابرا ٓکھڑی ہوئی۔جس اعلیٰ اور قابل رشک معیار زندگی کا ہم صرف تصور ہی کرسکتے ہیں وہاں کے شہریوں کو حاصل ہے۔ آخر کیا باعث ہے کہ صرف چند دہائیوں مین یہ چھوٹا سا ملک عظیم الشان کامیابیوں کی سیڑھیاں طے کرتا چلا گیا۔اور کوئی رکاوٹ اس کا راستہ نہ روک سکی،کوئی بلا اس کے آڑے نہ آئی،کوئی نظر ِ بد اس کو چت نہ کرپائی……جب ہم وجہ جاننے کی کاوش کرتے ہیں تو اس کے پیچھے ہمیں چین کے رہنما مسٹر ڈینگ شیاؤپنگ سنگاپور کے اس وقت کے وزیر اعظم لی کوان یو کو دیا ہوا ایک فارمولا نظر آتا ہے جس پر عمل پیراہوکر سنگا پور دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا۔آئیے جانتے ہیں یہ ایم پی ایچ نامی منفرد فارمولاکیا ہے جس نے سنگاپور کی تقدیر یکسر بدل ڈالی۔
ایم پی ایچ کا مطلب ہے …… میرٹوکریسی، عملیت پسندی اور ایمانداری۔درحقیقت یہ تین لفظوں پر مشتمل فارمولا سنگاپور کی جڑوں میں بیٹھا ہوا ہے۔ اور آج تک سنگاپور کے حکمرانوں کی رہنمائی کررہاہے۔
میرٹوکریسی: ایم پی ایچ فارمولے کا پہلا عنصر میرٹوکریسی ہے۔ اس کاصاف صاف مطلب یہ ہے کہ افراد کو ان کے سماجی پس منظر یا روابط وتعلقات کے بجائے ان کی صلاحیتوں اور کامیابیوں کی بنیاد پر ترقی دی جاتی ہے۔ یعنی کوئی ملک سسٹم چلانے کے لئے اپنے بہترین شہریوں کا انتخاب کرتا ہے نہ کہ حکمران طبقے کے رشتہ داروں کا۔ وسیع تر تناظر میں، لوگوں کا انتخاب طبقے، مراعات یا دولت کی بجائے میرٹ پر کرنے کا طریقہ کار ہونا چاہیے۔ سنگاپور میں یہ عنصر بطورقانون ہر شعبہ ہائے زندگی میں نافذ ہے۔یہ آغاز سے ملک کے تعلیمی نظام میں بھی نظر آتاہے جو میرٹو کریسی پر مبنی ہے۔ اور تعلیمی کارکردگی پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔ طلباء کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور انہیں مختلف مقابلوں اور پروگراموں کے ذریعے اپنی صلاحیتوں اور جوہرِ قابل کوآزمانے کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔ میرٹو کریسی پر اس خصوصی توجہ نے سنگاپور کو ایک انتہائی ہنر مند اور باصلاحیت افرادی قوت کی تیاری میں مدد دی ہے۔ جو ملک کی اقتصادی اور معاشی کامیابی میں اہم ترین رہی ہے۔
عملیت پسندی: ایم پی ایچ فارمولے کا دوسرا عنصر عملیت پسندی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پالیسیاں اور فیصلے نظریات یا سیاسی عقائد کی بجائے عملی غور و فکر کی بنیاد پرکئے جاتے ہیں۔ سنگاپور میں یہ عملیت پسندی حکومت کے ہر فیصلے کے پیچھے نظر آتی ہے۔ اور خاص کر معاشی اوراقتصادی ترقی کے حوالے سے حکومت کا نکتہ ء نظر واضح طور پرعملیت پسندپر مبنی ہوتاہے۔عملیت پسندی کا یہ بھی مطلب ہے کہ کوئی ملک پہیے کو دوبارہ ایجاد کرنے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔اسے سنگاپور کے ایک وزیر نے اس طرح بھی بیان کیا ہے کہ اگر سنگاپور کو کوئی بھی مسئلہ درپیش ہے۔اور کسی نے کہیں اسے حل کیا ہے۔توفور اً سے بیشتر ہم اس حل کو کاپی کریں اور اسے سنگاپور کے حساب سے ڈھال لیں۔ حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے، ہنر مند افرادی قوت کی تعمیر، اور فنانس، لاجسٹکس اور مینوفیکچرنگ جیسی اہم صنعتوں کو ترقی دینے پر توجہ مرکوز رکھتی ہے۔اور اپنی پالیسیوں میں واضح طور پر عملی اور ٹھوس نکتہ ء نظرکی حامل ہے۔
ایمانداری: ایم پی ایچ فارمولے کا تیسرا عنصر ایمانداری ہے، جس کا مطلب ہے بدعنوانی کے لیے صفر گنجائش۔ سنگاپور میں حکومت نے کرپشن اورمالی بدعنوانی کے خلاف سخت موقف اپنایا ہے، سخت قوانین اور بدعنوانی کے لیے سخت ترین سزائیں مقررہیں۔ اس سے ملک میں ایمانداری اور دیانتداری کے کلچر کا فروغ ہو ا ہے۔ اور اسی اجتماعی دیانت داری کے عنصر نے سرمایہ کاروں اور کاروباری اداروں کے درمیان اعتماد پیدا کرنے میں نہایت اہم کردار اداکیاہے۔
ایم پی ایچ فارمولا سنگاپور کی کامیابی کا اہم ترین محرک رہا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کوئی خود کار محرک نہیں ہے۔ترقی وکامرانی کے اس سفر میں حقیقی کردار سنگا پور کی قیادت نے ادا کیا ہے۔ لی کوان یو اور ان کے جانشینوں کی سرپرستی میں ایم پی ایچ فارمولے کو قابل ِ عمل بنایا گیا۔ حکومت دامے درمے سخنے چیلنجوں اور مواقع کی نشاندہی کرنے کے لیے سرگرم عمل رہی ہے۔ اور ایسی پالیسیوں پر عمل درآمد کیاگیاجس نے سنگاپور کودنیا کے سامنے رول ماڈل بنانے میں مدد دی۔دوسری جانب حکومت اپنے لوگوں کی بدلتی ہوئی ضروریات سے بھی آگاہ اور ان کے لئے جوابدہ رہی۔اور اس نے صحت، تعلیم اور سماجی فلاح و بہبود جیسے شعبوں میں بلا منافع بہت زیادہ سرمایہ کاری کی۔