کسی شاعرنے فصاحت سے بھرپوربات کہی ہے کہ عید کی خوشی جیسی بادشاہ کو ہوتی ہے ویسی ہی فقیر کو بھی ہوتی ہے۔
اور اس خوشی کا پیمانے میں فرق نہیں ہوتا۔خواہ اسے منانے کے طور طریقوں میں کتنا ہی فرق کیوں نہ ہو۔اب جبکہ عید الفطر کی آمدآمد ہے۔
اورنصف رمضان المبارک گزرنے کے قریب ہے۔ عید کے ہنگامے اور رنگ درو دیوار پر بلند ہورہے ہیں۔اور دلوں کے نہاں خانوں میں چھپی مسرتیں نئے کپڑوں،خوشبومیں بسے ہوئے ماحول، شیر خورمے، اور دیگر لوازمات ِ عید کی منتظر دکھائی دے رہی ہیں۔
اور صبح ِ عید کا نتظار برحق ہے کہ یہ خوشیوں بھرا دن روز روزنہیں آتاسال میں ایک مرتبہ زہے نصیب ہوتاہے۔
تو اس کا انتظار فطری بات ہے۔ہمیں عید کی خوشیاں منانے کا حق اللہ اوراس کے رسول کی جانب سے دیا گیا ہے، لیکن عید کی خوشیوں میں ذہن کے ہر گوشے میں یہ بات رکھنی چاہیے۔کہ ہمارے بہت سے بھائی بہن ان مسرتوں سے ہمکنار نہ ہوپائیں گے۔
اور اس دن بھی آسانیاں ان کی ہمراز ودمساز نہیں ہوں گی۔اس لئے وطن عزیز کے باسیوں کے لئے خصوصاً اور ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے عمومی طور سے دعا بھی کریں۔
اورجتنا ہوسکے ان کے لئے امداد بھی کیجئے کہ نظام دنیا اسی طرح چلتا آیا ہے۔اللہ رب العزت نے عید کے طفیل ہمار ے محروم ومستحق بھائیوں کی امداد کے لیے صدقۃ الفطر کی شرط ماقبل رکھ دی ہے تاکہ مسلم معاشرے کا کوئی بھی فرد عید کی خوشیوں سے کوئی محروم نہ رہ جائے۔
حدیث شریف میں بھی صدقۃ الفطر کا مقصود یہی بتایا گیا ہے کہ یہ صدقہ خاص غرباومساکین کی ضروریات کے لئے ہے۔اور خداوند متعال چاہتا ہے کہ اس کی دنیا میں کوئی مسکین عید کی خوشیوں سے محروم نہ رہے۔
اس ضمن میں آپ کو بتاتے چلیں کہ ہمارے اوپرجتنا صدقۃ الفطر واجب ہے اس کی پوری مقدار اداکرنی لازم ہے۔اس میں کسی طرح کمی نہیں رہنی چاہیے۔صدقہ ء فطر میں کمی کا مطلب اجر وثواب میں کمی ہے۔
اب آپ کو صدقہ ء فطر کی مقدار سے آگاہ کئے دیتے ہیں۔جیساکہ وطن ِ عزیز پاکستان میں عام رواج ہے کہ صدقۃ الفطر بالعموم گندم سے ادا کیا جاتا ہے۔یعنی نصف صاع گندم یا اس کی قیمت ادا کی جاتی ہے۔ایک صاع تقریبا 3 کلو پانچ سوگرام ہوتاہے اس لئے نصف صاع تقریبا ایک کلو ساڑھے سات سو گرام ہوا(غالبا ایک کلو سات سو بانوے گرام)۔